Ikhtelaf Aap Ka Haq Hai
اختلاف آپ کا حق ہے
کچھ عرصہ سے مختلف لوگوں کی پرائیوٹ وڈیوز لیک کی جا رہی ہیں۔ جو ان کی اپنی چار دیواری کے اندر ہے۔ اور اس میں جبری کوشش کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔ یعنی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ویڈیو ان خواتین نے خود بنائی ہیں تاکہ بلیک میل کیا جا سکے۔ یا جنہوں نے ان عوامی نمائندوں اور اہلکاروں کو پھنسانے کے لئے یہ محفلیں منعقد کی ہیں انہوں نے جان بوجھ کر یہ ویڈیوز بنائی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ مکروہ دھندا جائز ہے۔
عوامی نمائندہ ہو یا آفیسر اگر وہ گنہگار ہے اور اس کی عزت اچھالی جا رہی ہے تو اس کے ساتھ بدکاری کرنے والے کی بھی تصویر ظاہر ہونا چاہئے۔ یا پہلے مکمل تحقیق کر لی جائے اور پھر کسی کی عزت اچھالی جائے۔ اس ضمن میں حضرت عمرؓ کے زمانے کا ایک قصہ قارئین کی نظر کرتا ہوں۔ آپ بھلے مجھ سے اختلاف کریں مگر کسی کے گھر چار دیواری میں چھپ کر گناہ کرنے کو باری کرنے والے کو حد قذف اور زنا اور شراب یا نشہ کے انہی دفعات میں قید کیا جانا چاہئے جو ملزم پر لگائے جائیں۔ اس طرح کردار کا قتل شائد روکا جا سکے اور شائد بدکاری کو بھی۔
حضرت عمرؓ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعودؓ کے ساتھ رات میں گشت کر رہے تھے، ایک گھر سے گانے کی آواز سنائی دی۔ آپ نے دروازہ کے سوراخ سے جھانکا تو ایک بوڑھے کو دیکھا، جس کے سامنے شراب تھی اور گانے والی لڑکی تھی، حضرت عمرؓ دیوار پھلانگ کر بوڑھے کے پاس گئے اور فرمایا کہ تم جیسے بوڑھے کا اس حال پر ہونا کیا ہی برا ہے؟
وہ بوڑھا کھڑا ہوا اور کہا اے امیر المومنین! آپ کو میں قسم دیتا ہوں کہ آپ میرے متعلق کوئی فیصلہ نہ فرمائیں یہاں تک کہ میں کلام کر لوں، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کہو کیا کہتے ہو؟
بوڑھے نے کہا کہ اگر میں نے ایک امر میں الله تعالیٰ کی نافرمانی کی تو آپ نے تین باتوں میں معصیت کی، حضرت عمرؓ نے فرمایا وہ کون کون سی ہیں؟
اس نے کہا (پہلی بات یہ کہ) آپ نے تجسس کیا اور اس سے الله تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے﴿ولا تجسسوا﴾ (حجرات:12)
(اور دوسری معصیت یہ کہ) آپ گھر کے پیچھے سے کود کر گھر میں آئے، حالانکہ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: ﴿واتوا البیوت من ابوابھا﴾۔ (بقرہ:189)
(گھروں میں ان کے دروازے سے آؤ یعنی ان کے پیچھے سے نہ داخل ہو۔) اور الله تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: ﴿لیس البر بان تاتوا البیوت من ظھورھا﴾۔ (بقرہ:189)
یعنی نیکی یہ نہیں ہے کہ گھروں میں ان کے پیچھے سے داخل ہو۔
(اور تیسری غلطی یہ کہ) بغیر اجازت کے آپ گھر میں تشریف لائے۔
حالانکہ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿ لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا وتسلموا علی اھلھا﴾۔ (نور:27)
"یعنی اپنے گھروں کے علاوہ گھروں میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ اجازت لے لو اور اہل خانہ کو سلام کر لو۔ "
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم نے سچ کہا! پس کیا تم مجھ کو معاف کر دوگے؟ اس بوڑھے نے کہا الله تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ باہر تشریف لائے اس حال میں کہ آپ رو رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے کہ ہلاکت ہے عمر کے لیے، اگر الله تعالیٰ نے مغفرت نہ فرمائی۔
اپنے آپ کو مخاطب کر کے فرماتے تھے کہ "تم جانتے ہو کہ آدمی ایسی حالت کو اپنے اہل و عیال سے بھی چھپانا چاہتا ہے اور یہ اب کہے گا کہ مجھ کو امیرالمومنین نے دیکھ لیا"۔ اس واقعے کے بعد وہ بوڑھا شرم کی وجہ سے کافی عرصہ تک آپ کی مجلس میں نہ آیا اور نہ ہی حضرت عمرؓ نے اسے بلوایا۔ کافی عرصہ بعد اس نے سوچا کہ امیرالمومنین اب وہ واقعہ بھول چکے ہونگے تو ایک دن وہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوا۔
حضرت عمرؓ نے جیسے ہی اسے دیکھا تو فوراََ وہ واقعہ یاد آ گیا۔ آپ نے اشارے سے اسے پاس بلایا۔ وہ ڈرتا ہوا آپ کے قریب آیا تو آپؓ نے اس کے کان میں کہا۔ میں نے اس دن والے واقعے کا ذکر کسی سے بھی نہیں کیا حتیٰ کہ اپنے ساتھی سے بھی نہیں۔ اس بوڑھے نے جواب دیا امیرالمومنین میں بھی قسم کھا کر بتاتا ہوں کہ میں نے بھی اس دن کے بعد کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور پکی توبہ کر لی ہے۔
کاش! ہمارے اندر خوف خدا اور یوم الحساب کا وہ شعور بیدار ہو جاتا، جس نے امیرالمومنین کو رلا دیا اور فرما رہے تھے کہ ہلاکت ہے عمر کے لیے اگر الله تعالیٰ نے مغفرت نہ فرمائی۔ ہمیں اگر کسی کے گناہ یا کسی خامی کا پتہ چل جائے تو ہم ساری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹ دیتے ہیں اور اس کو ذلیل کر کے خوش ہوتے ہیں۔ حالانکہ اللہ پاک نے پردہ پوشی کا حکم دیا ہے۔ لیکن ہمیں تو دوسروں کو ذلیل کر کے مزہ آتا ہے بس اتنی گزارش ہے کہ ایسی کوئی چیز ہمارے سامنے آ جائے تو ہمیں اسے آگے فارورڈ کر کے اپنے آپ کو اس مکروہ دھندے کا حصہ نہیں بنانا چاہئے۔
رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کر دے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبة، 4 / 354، الحدیث: 4880)
ان گنہگاروں کے بھی خاندان ہیں۔ معصوم اولادیں ہیں، بیویاں ہیں، بہنیں ہیں انسانی خطا کی سزا پوری خاندان کو ملے، یہ تو خدا کا بھی قانون نہیں۔ البتہ مقافات عمل خدا کا کام ہے۔ انسانوں کا نہیں۔
حضرت عیسیٰؑ "کوہ زیتون" سے ہو کر عبادت گاہ میں آئے تو لوگ ایک زانی عورت کو پکڑ کر لائے اور کہنے لگے کہ موسیٰؑ اور اس کا قانون کہتا ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے۔ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا۔ درست "اب تم میں سے جو کوئی گنہگار نہ ہو وہ پہلا پتھر مارے"، سارے لوگ تتر بتر ہو گئے اور عورت اکیلی رہ گئی۔ تب حضرت عیسیٰؑ نے اس عورت سے کہا، "سب الزام لگانے والے چلے گئے۔ جاؤ اور مزید گناہ نہ کرو۔ "
گنہگار ہم سب ہیں۔ یا اللہ ہمارے حال پر رحم کر بحق نبی کریم ﷺ اور ہم سب کے پردے رکھ اور ہمیں وہ ہدایت نصیب فرما۔ جس میں تو ہم سے راضی ہو جائے۔ اور یوم حشر نبی کریم ﷺ کی شفاعت نصیب ہو۔