Hazrat Ayesha (2)
حضرت عائشہ (2)
خلفاء راشدین یعنی حضرت ابو بکر، حضرت عمر حضرت عثمان اور حضرت علی شیر خدا تو وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے حضور آقاﷺ کے ہر عمل کی پیروی فرمائی۔ کہیں کوئی ضعیف روایت چاروں مسلک، تمام اہل تصوف نکال لائین کہ انہوں نے آقاﷺ کی اتباع میں نابالغ لڑکی سے نکاح کیا ہو؟ یا ساڑھے تین ہزار صحابہ جنہوں نے بیعت رضوان میں حصہ لیا تھا ان کی زندگیوں سے کوئی ایک مثال نکال لاو۔۔ ایسا نہیں ہے یہ بعد نبی کریمﷺ کی حرمت پر ضرب لگانے کی مذموم سازشیں ہیں جنہیں آج کا مسلمان خوامخواہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔۔ یاد رکھو اگر لیڈر پر اعتماد ہو تو اس کی کسی بات پر نقطہ چینی نہیں کی جاتی۔۔ جیسا صحابہ کرام کا وطیرہ تھا۔۔ کہ جو آقاﷺنے کہا یا کیا اسے من وعن مانا۔۔
لیکن ایک اور پہلو اس بات کا ہو سکتا ہے۔۔ اس بات کو سمجھانے سے قبل میں تمہیں ایک واقع سناتا ہوں۔
جب آقاﷺ غزوہ تبوک تشریف لے گئے اور وہان سے دمشق کی جانب پیش قدمی کا ارادہ فرمایا تو نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کرام کی ایک مجلس مشاورت منعقد کی اور اس مجلس کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا کہ کیا ہمیں یہاں سے دمشق کی طرف پیش قدمی کرنا چاہئے یا واپس مدینہ منورہ لوٹ جانا چاہئے؟
حضرت فاروق اعظم نے عرض کی یا رسول اللہ اگر حضور آقاﷺ کو دمشق کی طرف پیش قدمی کا حکم وحی ہوا ہے تو ضرور تشریف لے چلیں۔۔ آقاﷺنے فرمایا! اگر مجھے اس بارے میں وحی کے ذریعے حکم ملتا تو میں تم سے قطعی مشورہ نہ کرتا۔ تب حضرت عمر نے اپنی رائے پیش کرنے کی جسارت کی۔۔ (ضیاء النبی جلد چہارم)
لہذا اگر اللہ کریم نے نبی کریمﷺ کو وحی فرمائی کہ آپ کریمﷺ حضرت عائشہ سے نکاح فرمائیں۔۔ تو وہ اگر پالنے میں بھی ہوتیں تو آپ کریمﷺ ان سے نکاح فرماتے۔۔ کیونکہ یہ حکم خدا وندی تھا۔۔ اور اگر حکم عدولی ہوتی تو۔۔ اس ضمن میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
ترجمہ:اور اگر وہ کوئی بناوٹی بات ہمارے ذمہ لگاتا۔ تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔ پھر ہم اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔ پھر تم میں سے کوئی بھی اس سے روکنے والا (بچانے) نہ ہوتا۔ (سورہ الحاقہ)
یاد رکھو بیٹا! نبی کریمﷺ احکام الہیہ کے پابند تھے۔۔ انہیں وہی کرنا تاحال جو انہیں حکم تھا۔ جیسے ان کی 11 اور کچھ جگہوں پر 13 شادیوں کی تفصیل ملتی ہے۔۔ یہ عام مسلمان کے لئے اجازت نہیں۔ اسی طرح حضور نبی کریمﷺ پر تہجد فرض تھی جبکہ امت پر فرض نہیں۔
اسی لئے صحابہ کرام کا اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے یہ شادی کن حالات میں فرمائی۔۔ تمام صحابہ اور حضرت ابوبکر پر یہ واضح تھا کہ یا تو یہ عام نکاح ہےجس میں بلوغت شرط ہے اور اگر یہ کسی خاص مقصد کے لئے کیا جا رہا ہے تو وحی خدا وندی ہے۔ جس پر اعتراض کا مقصد نعوذ باللہ نبی کریمﷺ کی ذات پاک پر اعتراض ہے ناکہ حضرت عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہ کی عمر پر۔۔
تو۔۔ تو پھر یہ مسلمان کیوں نہی سمجھتے؟ فرحان ہکلایا
بابا بولا۔۔ بیٹا! تمہیں معلوم ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ پر منافقین مکہ اور یہود نے الزام اور ان کے کردار پر بہتان لگایا تھا۔۔ اس کا مقصد نعوذ باللہ حضور نبی کریمﷺ اور ابو بکر صدیق کی دل آزاری تھی اور مسلمانوں میں تفرقہ پھیلانا تھا۔۔ جس کی زد میں بہت سے اہل مدینہ آئے تھے۔ اور یہ فتنہ ایک ماہ سے زائد مدینہ میں گھر گھر گردش کرتا رہا۔۔ صرف وہی بچ سکے جن کے دلوں کو اللہ نے نبی کریمﷺ سے بے لوث محبت اور اپنے نبی پر اعتماد تھا۔ ورنہ یہ پہلا موقع تھا جس میں بدری صحابی بھی فتنہ سے بچ نہ سکے۔۔
تب قران نے حضرت عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا کی پاک دامنی کی آیات سورہ نور میں نازل فرمائیں۔۔ تم کیا سمجھتے ہو جن کو قرآن نے پاک کیا ہے ان پر بہتان لگانے والے مسلمان ہیں۔۔ یا آج تک یا روز قیامت تک کسی بھی عالم یا پروفیسر یا مفکر کا علم صحابہ کرام سے زیادہ ہو گا جو نبی کی زوجہ یعنی اپنی ماں پر اعتراض اٹھاتے ہیں۔۔
سنو جب حضرت عائشہ صدیقہ پر الزام لگا نا۔۔ توایک دن رسول اکرم ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر مسلمانوں سے فرمایا کہ اس شخص کی طرف سے مجھے کون معزور سمجھے گا یا میری مدد کرے گا جس نے میری بیوی پر بہتان تراشی کر کے میری دل آزاری کی ہے۔
ہم جب بھی اہل بیت، امہات المومنین یانبی کے قریبی ساتھیوں پر کوئی بھی تہمت یا بہتان یا الزام تراشی کرتے ہیں تو دراصل ہم اپنے نبی کریمﷺ کی دل آزاری کر رہے ہوتے ہیں۔۔
جب بھی کوئی بات اپنی علمیت کے جوش میں آکر یا عقل کل بن کر نبی کریمﷺ یا ان سے منسوب ان کے رشتہ داروں اور ساتھیوں پر کہنے لگو تو پہلے اپنی ماں، باپ، بہن بیٹی کو وہ طعنہ یا اعتراض میں ضرور رکھ کر دیکھنا۔۔ کیا تمہارا باپ 6 سال کی بچی سے نکاح کر سکتا ہے۔۔ اگر تمہارا باپ اتنا سمجھدار ہے تو پھر تم نبی کریم پر بہتان اور تہمت لگا رہے ہو۔۔
ولید بن مغیرہ نے صرف ایک بار حضور آقاﷺ کی شان میں گستاخی کی انہیں (نعوذ باللہ مجنون) کہا۔۔ اللہ کریم نے پوری سورہ قلم میں آقاﷺ کو دلاسہ اور اس کی شخصیت پر 11 طعنے دئے۔ اور یہاں تک فرمایا کہ وہ "زنیم " یعنی زنا سے پیدا ہوا ہے۔۔ اور یہ آیت تا قیامت پڑھی جائے گی۔۔
عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِـيْمٍ (13)
بڑا اجڈ، اس کے بعد بد اصل بھی ہے۔ (سورہ قلم)
یاد رکھو۔۔ اللہ نبی کریم پر الزام لگانے والے کو بد اصل(حرامی) سمجھتا ہے۔۔ کیونکہ زنا سے پیدا ہونے والے صرف وہی نہیں ہوتے جن کے باپ کوئی اور ہوں۔۔ بلکہ جن کے نطفے میں شیطان نے اپنا نطفہ شامل کیا ہو وہ بھی حرامی یا بد اصل ہوتےہیں۔ یہ میں نہیں قران کہتا ہے۔۔ جب ابلیس نے انکار کیا تھا نا تو اس نے اللہ سے انسان کو بہکانے کی اجازت مانگی تھی۔۔ جس پر اللہ کریم نے اسے ان الفاظ میں اجازت عطا فرمائی تھی۔
ترجمہ: ان میں سے جسے تو اپنی آواز سنا کر بہکا سکتا ہے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے بھی چڑھا دے اوران کے مال اور اولاد میں بھی شریک ہو جا اور ان سے وعدے کر اور شیطان کے وعدے بھی محض فریب ہی تو ہیں (سورہ بنی اسرائل)
اس آیت میں مال اور اولاد میں ابلیس کا شامل ہونا ثابت ہے۔۔
بخاری شریف میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اسکے والد اور اسکی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
بس یہ یاد رکھنا۔۔ اللہ کریم اپنے محبوب کریمﷺ کے معاملات میں بہت حساس ہیں۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بحث تو جیت جاو۔۔ اور ایمان اور شفاعت ہار جاو۔۔
اللہ کریم نبی سے محبت رکھنے والوں کو اپنا محبوب قرار دیتے ہیں
ترجمہ: کہہ دو اگر تم اللہ کی محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو تاکہ تم سے اللہ محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (ال عمران)
ثابت ہوا کہ جملہ فراءض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجورﷺ کی ہے