Ghasiq Kya Hai?
غاسق کیا ہے؟

*وَمِنُ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ*
ترجمہ: اور اندھیری رات (اندھیرے) کی تاریکی کے شر سے جب اس کا اندھیرا پھیل جائے۔
غاسق کے لغوی معنی ہیں اندھیرا جبکہ شفق غائب ہوجائے۔ عرب بول چال میں اس سے مراد رات کی ابتدا جب اندھیرا شروع ہو لیا جاتا ہے اور تاریکی بڑھ جائے۔۔ لیکن جدید سائنس نے ثابت کیا ہے کہ کائنات کے تاریک ترین حصوں میں کئی راز پوشیدہ ہیں اور اگر عام فہم مفہوم لیا جائے تو کائنات میں ایک پراسرار ڈارک میٹر dark matter اور dark energy کا وجود ہے۔۔ جو اس کائنات کی ساخت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔۔ تاریک مادہ (Dark Matter) کہکشاؤں میں موجود ایسا مادہ ہوتا ہے جو نہ روشنی منعکس کرتا ہے، نہ کسی اور قسم کی توانائی، مگر یہ کہکشاؤں میں موجود ہے تبھی کہکشائیں اپنی موجودہ شکل میں موجود ہیں۔
اس دنیا اور کائنات میں جو چیز بھی ہم دیکھتے ہیں خواہ وہ ایٹم کے ذرّات سے لے کر اس کائنات میں کہکشائیں، سورج، چاند اور ستارے سب ملا کر محض چار سے پانچ فیصد بنتا ہے۔ بقایا 71 فیصد ڈارک انرجی اور بیس سے زائد فیصد ڈارک میٹر یعنی کے سیاہ مادّہ پر پھیلا ہوا ہے۔ جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔۔ آنے والا وقت ہی بتائے سکتا ہے کہ اس میں چھپی خوبیاں اور خامیاں کیا کیا ہیں جو جنات اور انسانوں کے ماحول پر اثر انداز ہونگی۔
(2) چاند کو بھی غاسق کہا جاتا ہے۔ ترمذی میں ایک حسن صحیح روایت ہے کہ "نبی ﷺ نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چاند کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ اس کے شر سے پناہ مانگو کیونکہ یہی غاسق ہے۔
چاند کے بارے میں بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ چاند کی شعاعیں انسانی سوچ، عمل اور صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں کیونکہ یہ چاند ہی کا اثر ہے کہ ہمارے سمندر متلاطم رہتے ہیں اور چودھویں رات کو ان کے مدوجزر میں خاصی شدّت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ چاند کی مقناطیسی قوت سےسمندروں میں مدوجزر پیدا ہوتا ہے۔ چاند کی قوت ثقل یا کشش کا اثر سمندر کی لہروں پر بھی پڑتا ہے۔ اگر آپ سمندر کی کنارے پر ہو اور آپ کے بالکل اوپر چاند ہو، تو آپ کے پاس سمندر کی لہریں اور بھی تیزی سے آئیں گی۔ چاند کے گھٹنے بڑھنے کے اثرات نباتات اور حیوانات پر بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہناہے کہ پورے چاند کے اثرات انسانی نفسیات پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
انسانی زندگی پر چاند کے اثر کا عقیدہ ہزاروں سال پُرانا ہے۔ قدیم یونان کے عظیم ترین فلسفی اور سائنس دان ارسطو اور تاریخ دان پلینی کا کہنا تھا کہ سمندر کی طرح چاند کی مختلف حالتوں کا پودوں، جانوروں اور انسانوں پر اثر پڑتا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ دماغ بھی ایک مائع صورت رکھتا ہے اس لیے پورے چاند کے موقع پر انسانی دماغ میں طلاطم اور مدوجذر پیدا ہوتے ہیں، بعض کا دعویٰ ہے کہ اگر چاند سمندی مدوجزر کو متاثر کرتا ہے توپھر اسے انسانوں پر بھی ضرور اثر انداز ہونا چاہئے کیونکہ انسانی جسم کا بیشتر حصہ پانی پر مشتمل ہے۔
علاوہ ازیں چاند کی مختلف حالتوں اور نفسیاتی بیماریوں، کسی شخص کی پیدائش کے وقت اور ماہواری کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ عہد وسطٰی میں یہ نظریات رائج تھے کہ پورے چاند کے وقت انسان پر پاگل پن کے دورے پڑ سکتے ہیں۔ اس دماغی بیماری کو Lunacy کہا جاتا تھا اور اسی حالت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، جس کے مطابق چاند کے مختلف مراحل میں کسی شخص کا اپنے دماغ پر اختیار قائم نہیں رہتا۔ اس سے ایسی حرکات سرزد ہوسکتی ہیں جن سے عام حالات میں وہ گریز کرتا ہے۔
برطانیہ کی قانونی کتابوں میں لیونیسی ایکٹ کا سول رائٹس کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا۔ گو کہ یہ قانون ختم کر دیا گیا۔۔ لیکن بہت سے تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے چاندنی راتوں میں انسانی ذہن بھی متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں بلاوجہ کا اشتعال، خون ریزی، ذہنی میلان کا جرائم کی طرف بڑھنا وغیرہ جیسی کیفیات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس دوران ذہنی بیماریوں میں اضافہ، حادثات، خودکشی، خطرناک ذہنی و اعصابی دورے، تشدد اور منتشرخیالی وغیرہ میں اضافہ بھی نوٹ کیا گیا ہے۔
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ چاند کی گردش ہمارے بعض جسمانی نظام سے کچھ ایسی مماثلت رکھتی ہے کہ اُنہیں چاند کے اثرات سے جدا نہیں کیا جاسکتا مثلاً خواتین کے مخصوص ایام آج بھی چاند کی گردش سے منسلک سمجھے جاتے ہیں۔ سویڈن کے ایک کیمسٹ ڈاکٹر سوانتے آرہینئس نے گیارہ ہزار خواتین کے کوائف کو تفصیل سے جانچنے کے بعد خواتین کے مخصوص نظام اور چاند کی بدلتی ہوئی حالتوں میں حیرت انگیز تعلق دریافت کیا۔ جرمنی کے دیگر ماہرین نے بھی ایسے ہی دس ہزار کوائف کا جائزہ لیکر اس کی تائیدکی۔
سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے محقق مائیکل اسمتھ Michael Smith نے انکشاف کیا ہے کہ چاند کی پوری شکل انسان کی نیند کے قدرتی عمل یا حیاتیاتی گھڑی پر اثر انداز ہوتی ہے جس کی وجہ سے پورے چاند کی راتوں میں ہم پر نیم بیداری کی کیفیت طاری رہتی ہے اور اس رات نیند کا دورانیہ عام دنوں کی نسبت 25 منٹ کم رہتا ہے۔ اس متواتر بے خوابی کا نتیجہ چاند راتوں میں نفساتی امراض کے دورے، ڈیپریشن، خودکشی اور قتل کے واقعات، حادثات اور کئی دوسرے جرائم بڑھ جاتے ہیں۔
تجربات سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ اگر کسی درخت کو چاندنی رات میں کاٹا جائے تواس کے کٹاؤ سے زیادہ چوب رس خارج یا Sapflow ہوگا۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے جنوبی امریکہ، جنوبی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیاء کی سخت اور پکی لکڑی کے جنگلات اُترتے چاند کی تاریخوں میں ہی کاٹے جاتے ہیں۔ اگرایسا نہ کیا جائے تو کٹی ہوئی لکڑی پر ڈیتھ واچ بیٹلز deathwatch beetles نامی کیڑوں کا حملہ ہوجاتا ہے اور کاٹی گئی لکڑی کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ یہ کیڑے درخت کی لکڑی میں گہرے سوراخ کردیتے ہیں یوں لکڑی خراب ہو جاتی ہے اور کوڑیوں کے مول فروخت ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ درختوں کی کٹائی کا یہ طریقہ وہاں صدیوں سے قائم ہے۔
چاند اور چاندنی سے صرف انسان ہی نہیں جانور بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ بھیڑیوں کا جنگلوں میں چاندنی راتوں میں اکٹھے ہوکر ایک مخصوص لمبی آواز میں شور کرنا، دیہاتوں اور جنگلوں کے قریب آباد بستیوں میں اکثر سنائی دیتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ شہروں میں بھی کتے بلیاں اور دوسرے جانور ایسی روشن راتوں میں نسبتاً زیادہ شور مچاتے ہیں۔ چاندنی راتوں میں بعض پالتو پرندے بھی اپنے پنجروں میں بے چینی محسوس کرتے ہیں بعض مچھلیوں اورسمندری جانوروں کے معمولات اور انڈوں بچوں کی پیدائش کا طریقہ کار اس طرح متعین ہے کہ وہ اس مدّوجزر سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں۔
نوٹ: میرے مضمون سورہ الفلق کے ترجمہ اور تشریح سے ایک اقتباس۔

