Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Father Day

Father Day

فادر ڈے

جناب ثاقب رضا مصطفائی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مجلس رسول اللہﷺ لگی ہوئی تھی، لوگوں کا ہجوم تھا ایک آدمی نے عرض کی رسول میرے لیے دعا کریں میرا بچہ مل نہیں رہا کہ وہ مل جائے قبل اس کے آپﷺ ہاتھ اُٹھاتے ایک آدمی مجلس میں موجود تھا کھڑا ہوگیا اور بولا حضور میں ابھی فلاں باغ سے گزر کر آیا ہوں۔

اس آدمی کا بچہ دوسرے بچوں کیساتھ کھیل رہا تھا۔ باپ نے جب سنا کہ میرا بچہ فلاں باغ میں ہے۔ اس نے دوڑ لگا دی آپﷺ نے فرمایا لوگو اس کو روکو اس کو واپس بلاؤ اس نے کہا حضور آپ جانتے ہیں۔ ایک باپ کے جذبات کیا ہوتے ہیں کہا اچھی طرح آگاہ ہوں لیکن تمہیں واپس بلایا اور بلانے کابھی ایک مقصد ہے، اس نے کہا جی حضور ارشاد فرمائیے۔

جب تم باغ میں جاؤ تو بچوں کیساتھ اپنے بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھ لو تو بیٹا بیٹا کہہ کر آوازیں مت دینا جو نام رکھا ہے اس نام سے پکارنا۔ اس آدمی نے کہا حضور وہ میرا بیٹا ہے اگر میں بیٹا کہہ کر بلاؤں تو کیا حرج ہے، فرمایا کہ تم کئی دنوں کے بچھڑے ہوئے ہیں۔ تمہارے لہجے میں بلا کا درد ہوگا۔ تم نہیں جانتے کھیلنے والوں بچوں میں کوئی یتیم بھی ہوگا۔

اور جب اپنے بچے کو بیٹا کہہ کر پکارو گے اتنا میٹھا لہجا ہوگا تو اس یتیم کے دل پر چوٹ لگے گی اور کہے گا کاش آج میرا باپ ہوتا، مجھے بیٹا کہہ کر پکارتا فرمایا یہ شوق گھر جاکر پورا کرنا مگر بچوں کے سامنے نہ کرنا۔ آپﷺ نے فرمایا، کسی بیوہ کے سامنے اپنی بیوی سے پیار مت کرنا غریب کے سامنے اپنی دولت کی نمائش مت کرنا حضورﷺ نے یہاں تک فرمایا اپنی گوشت کی خوشبو سے اپنے ہمسائے کو تنگ مت کرنا۔

ہم پاکستانی لوگ بھی عجیب ہیں۔ جو کچھ ہمارے رسم ورواج اور معاشرے سے میل نہیں رکھتا ہم اس میں بھی سرگرم رہتے ہین۔ چاہے ویلنٹائن ڈے ہو، مدر ڈے ہو، یا فادر ڈے۔ ہم خاندانوں میں رہنے والے ہیں۔ آج سے کچھ سال قبل ہمیں چچا یا ماموں بالکل اولاد کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور نہ ماں باپ کو برا لگتا اور نہ ہی ہمیں عزت نفس کا مسئلہ ہوتا۔

لیکن پھر میڈیا اور انڈسٹریز نے اپنی آمدن کے مختلف طریقوں کو بڑھاوا دیا۔ اور مختلف دنوں کو ہم نے سال میں تہوار کی طرح منانا شروع کر دیا۔ بغیر یہ سوچے کہ اس کے اثرات معاشرے پر کیسے ہوں گے۔ ہم گلا پھاڑ پھاڑ کر مدر ڈے یا فادر ڈے منا رہے ہوتے ہیں۔ اسکولوں میں پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں ماں کی محبت کی قلابیں ملائی جاتی ہیں۔

اسی معاشرے میں جہاں خاندان نے خالاوں، پھوپھیوں چچیوں نے اپنے بغیر ماں کے بچے یا بچی بھانجے بھتیجے کو یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا۔ معاشرہ، اسکول میڈیا اپنا ایک دن کا پروگرام اسکور کرنے کی خاطر ایسے کئی بچوں کو جو single parent کے ذریعے پروان چڑھ رہے ہیں، دکھ ڈے جاتے ہیں یا احساس کمتری کا شکار کر جاتے ہیں۔ جس بچے کو باپ کی شفقت نہیں ملی اس کے سینے سے ایک آہ نکلتی ہے اور وہ بھرے معاشرے میں اکیلا ہو جاتا ہے۔

جو بچہ ماں کی آغوش کو ترس رہا ہے اس کی کمی اسے اور شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ بحیثیت ایک مسلم معاشرہ ان دنوں کو منانے کا ایک اور دن بھی ہو سکتا ہے۔ کہ جو کچھ محبت و شفقت آپ کو اللہ کے کرم سے اپنے والد سے والدہ سے ملی ہے۔ اس کا زبانی اظہار کرنے کی بجائے وہ محبت کسی یتیم بچے یا بچی کو دیں۔ ماں اور باپ کی تعریفیں کرنے کی بجائے ان کے لئے صالح اولاد بنیں۔

اور بطور صدقہ جاریہ جو محبت، شفقت اور حفاظت آپ کو اپنے ماں باپ سے ملی۔ اسی ایک یتیم یا بن ماں کے بچے تک پہنچائیں۔ یقین کریں یہ آپ کے والدین کی قبر کو پرنور اور ان کے درجات کو بلند کرنے کا باعث ہو گا، چاہے وہ حیات ہیں یا نہیں۔ بالغ ہونے کے بعد اگر آپ ماں اور باپ کی شفقت یاد کرے اداس ہوتے ہیں تو آپ ماضی میں ہیں۔

لیکن اگر یہ محبت اپنی اولاد یا کسی یتیم و مسکین تک منتقل کرتے ہیں تو آپ اپنے حصے کی شمع روشن کرتے جا رہے ہیں۔ اگر آپ یتیم بچوں کی تعلیم وتربیت یا ان کی کفالت کی استطاعت نہیں رکھتے تو ان کے ساتھ نرمی اختیار کریں۔ یتیم بچوں کے ساتھ حسن سلوک بھی کسی نیکی سے کم نہیں، ان بچوں کو باپ کی کمی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔

اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ کاش کوئی ایسا ہوتا، جو باپ کی طرح لطف وکرم کا معاملہ کرتا، محبت بھری نگاہ ڈالتا اور بڑے پیار وشفقت سے ان کے سر پر ہاتھ رکھتا۔ اگر آپ یتیم بچوں سے شفقت سے پیش آئیں گے تو وہ آپ سے مانوس ہوجائیں گے اور باپ کے کھونے کا غم ہلکا ہو جائے گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا "مَیں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح(قریب) ساتھ ہوں گے "اور آپ نے اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی سے اشارہ کیا۔ (بخاری شریف)

سورہ الکہف میں حضرت موسی علیہ السلام اور ایک بزرگ جنہیں اللہ کی طرف سے برائےراست علم حاصل تاحال کا واقعہ ہے۔ جس کی اہل علم و تصوف بے پناہ تاویلیں بیان کرتے ہیں، اور کبھی تو ایسی حد کر دیتے ہیں کہ اللہ کی پناہ لیکن اگر ان تینوں واقعات کو جو ان دونوں بزرگوں کے ساتھ پیش آئے کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ صرف اور صرف نیک اور صالح والدین کو نیک اور صالح اولاد اور ہٹیں کے مال کی حفاظت کے گرد گھومتے ہیں۔

کہ اگر پورا شہر آپ کے خلاف ہو جائے آپ کو پناہ نہ دے اور خاطر مدارات نہ کرے تب بھی آپ نے یتیم بچے کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹنا۔

میں نے اپنی زندگی میں ایک شخص کو کتاب کی طرح پڑھا ہے۔ وہ کہتے تھے بیٹا، مجھے جب بھی زندگی کی کسی منزل میں سخت مشکل پیش آئی اور معاملات اٹک گئے۔ میں نے فورا کسی یتیم بچے کی تلاش شروع کی۔ اسے ڈھونڈ لینے کے بعد اسے پیار کیا اسے خوش کیا۔ اور جب وہ بچہ کھلکھلا کر ہنس پڑا میرے دل کو سکون ہو گیا کہ اب میری یہ مشکل اور پریشانی ختم ہو جائے گی۔ اور واقعی ایسا ہوا۔

دُکھائے دل جو کسی کا، وہ آدمی کیا ہے

کسی کے کام نا آئے، تو زندگی کیا ہے

Check Also

Na Milen Ke Bharam Qaim Rahe

By Rauf Klasra