Dr. Muhammad Hamidullah
ڈاکٹر محمد حمید اللہ

علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔۔ (الحدیث)
ڈاکٹر محمد حمید اللہ (1908-2002) ایک ممتاز اسلامی سکالر اور محقق تھے۔ انہوں نے حیدرآباد، دکن میں تعلیم حاصل کی اور بعد میں جرمنی اور فرانس کی جامعات سے بین الاقوامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔
اہم خدمات:
تصنیف و تحقیق: انہوں نے 250 سے زائد کتابیں اور مقالے لکھے۔ ان کی سب سے مشہور کتاب "خطبات بہاولپور" ہے، جو اسلام کے بنیادی تصورات اور سیرت نبوی پر مشتمل ہے۔
حدیث پر کام: انہوں نے قدیم ترین حدیثی مخطوطہ "صحیفہ ہمام بن منبہ" کو دریافت کرکے شائع کیا۔
لسانی مہارت: وہ 22 سے زائد زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور قرآن کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا۔
سادگی: وہ نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے اور کسی بھی اعزاز اور سرکاری عہدے سے دور رہے۔ انہیں پاکستان کا ہلال امتیاز بھی پیش کیا گیا لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔
ان کی علمی خدمات کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے اور وہ اسلامی قانون، تاریخ اور حدیث کے میدان میں ایک اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے نہایت شگفتہ مگر فاضلانہ گفتگو کے انداز میں کسی تحریری یادداشت کے بغیر متعدد اسلامی موضوعات پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں مسلسل بارہ روز تک دیئے۔ ان خطبات کو من و عن ریکارڈ کر لیا گیا اور پھر تحریری شکل شائع کیا گیا۔ فاضل مقرر سالہا سال تک فرانس میں مقیم رہے اور یہاں نیشنل سنٹر آف سائنٹیفک ریسرچ سے بیس سال تک منسلک رہے۔ اپنے تحقیقی اور تبلیغی کارناموں کی وجہ سے مشرق و مغرب کے علمی حلقوں میں یکساں طور پر ممتاز رہے۔ ایک جگہ وہ اس حدیثِ مبارکہ کاسیاق وسباق پیش کرتے ہیں کہ "علم سیکھو چاہے وہ چین ہی میں کیوں نہ ہو"۔ آج کل اس حدیث پر ہونے والی تنقید اور بحث کی تفصیل ہم بھی جانتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ رقمطراز ہیں"عقلی اور تاریخی نقطہ نظر سے مجھے اس حدیث مبارکہ پر اعتراض کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ بہرحال اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہوگا کہ آپ ﷺ کو چین کا علم کیسے ہوا، جبکہ عرب، ایشیاء کے انتہائی مغرب میں ہے اور چین ایشیا کے انتہائی مشرق میں ہے اور ان دونوں ممالک میں کسی طرح کا کوئی ربط یا تعلق نہیں نظرآتا۔ ان حالات میں رسول اللہﷺ کو کیسے علم ہوا کہ چین میں علوم و فنون پائے جاتے ہیں۔ سوال معقول ہے لیکن ہمارا مطالعہ ذرا وسیع ہو اور ہمیں اپنی علمی میراث سے واقفیت ہو تو پھر یہ سوال باقی نہیں رہتا بلکہ خود بخود حل ہو جاتا ہے۔
مثلاً مسعودی کی کتاب "مروج المذاہب" کے نام سے ہمارا ہر پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ اسلام سے پہلے چینی تاجر عمان تک آتے تھے بلکہ عمان سے آگے اہلِ چین بصرہ تک بھی پہنچتے تھے اور یہاں یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ اس زمانے میں عربوں کیلئے چین اور چینی اجنبی نہیں تھے، اس سے بھی زیادہ قابل غور واقعہ ایک اور ہے کہ محمد ابن حبیب بغدادی نے اپنی کتاب "کتاب "المحبر" میں لکھا ہے کہ ہر سال عمان میں"دبا" نامی مقام پر ایک میلہ لگتا تھا جس میں شرکت کیلئے سمندر پار سے بھی لوگ آیا کرتے تھے، ان لوگوں میں ایرانی بھی ہوتے تھے، چینی بھی ہوتے تھے، ہندی اور سندھی بھی ہوتے تھے، مشرقی لوگ بھی ہوتے تھے، مغربی لوگ بھی ہوتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ دبا کی اہمیت کے سلسلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ آپ کی یاد دلائوں۔ جب عمان کا علاقہ اسلام قبول کرتا ہے تو عمان میں ایک گورنر ہوتا ہے، اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ نے ایک اور گورنر کا تقرر صرف بندرگاہ ودبا کے امور کیلئے فرماتے ہیں۔ اس سے اس مقام کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ غالباً اس انٹرنیشنل میلے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہوں گے۔ تجارتی جھگڑے، کاروباری معاملات وغیرہ۔ اس لئے عہد نبویﷺ میں خصوصی افسر کی ضرورت محسوس کی گئی۔
ان دو واقعات کے بعد مسند لاامام احمد بن حنبل پر نظر ڈالئے۔ جس کے بعد ہمیں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ رسول اللہ ﷺ کی اُن چینیوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں ذکر کر چکا ہوں کہ مسعودی کے بیان کے مطابق چینی تاجر اپنے جہازوں میں سمندری راستے سے عمان کے علاوہ بصرہ تک جاتے تھے۔ اس دوسری روایت میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ دبا نامی بندرگاہ میں جو جزیرہ نمائے عرب کی سب سے بڑی بندرگاہوں میں سے ایک بندرگاہ تھی ہر سال میلہ لگتا تھا، وہاں ہر سال چینی لوگ آتے تھے ان دوچیزوں کو ذہن میں رکھ کر مسند احمد بن حنبل کو پڑھیں۔ اس میں لکھا ہے کہ قبیلہ عبد القیس کے لوگ جو عمان و بحرین میں رہتے تھے، مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا۔ ایک چھوٹی سی چیز پر آپ کی توجہ منعکف کراتا ہوں وہ یہ کہ اس میں بحرین کا جو لفظ آیا ہے اس روایت میں اس سے مراد وہ جزیرہ نہیں ہے جسے ہم آج کل بحرین کہتے ہیں اور جو جزیرہ نمائے عرب میں خلیج فارس کے اندر واقع ہے۔
بہرحال اس میں لکھا ہے کہ بحرین کے لوگ جن کا تعلق قبیلہ عبدالقیس سے ہے اسلام لانے کیلئے مدینہ آتے تھے۔ اس روایت میں اس بات کی بھی تفصیل ملتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں سے کچھ سوالات کئے۔ مثلاً فلاں شخص ابھی زندہ ہے، کیا فلاں سردار زندہ ہے، فلاں مقام کا کیا حال ہے، آپ ﷺ کے ان سوالات کو سن کر وہ لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں یا رسول اللہﷺ، آپ ﷺ تو ہم سے بھی زیادہ ہمارے ملک کے شہروں اور باشندوں سے واقف ہیں۔ یہ کیسے ہوا، اُن لوگوں کے اس سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پائوں تمہارے ملک کو بہت عرصے تک روندتے رہے ہیں"۔
دوسرے لفظوں میں میں وہاں بہت دنوں تک مقیم رہا ہوں۔ اس صراحت کے بعد ہمیں شبہ نہیں رہتا کہ رسول اللہ ﷺ غالباً شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر نہ صرف شام جاتے ہیں جس کی صراحتیں موجود ہیں بلکہ مشرقی عرب کو بھی جاتے ہیں تاکہ دبا کے میلے میں شرکت کر سکیں اور کوئی تعجب نہیں آپﷺنے یہیں پر چینی تاجروں کو بھی دیکھا ہو اور ممکن ہے کہ ان سے گفتگو بھی کی ہو کیونکہ اگر چینی وہاں آیا کرتے تھے تو انہیں کچھ ٹوٹی پھوٹی عربی آ جانی چاہیے۔ اس کے بعد وہاں پر یقیناً ایسے مترجم ہوتے ہوں گے جو چینی اور عربی دونوں زبانیں جانتے ہوں۔
بہرحال اس کا امکان ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ان چینیوں سے ملاقات کی اور میرا گمان ہے کہ ان کے ریشمی سامان پر خاص کر آپ ﷺ کی توجہ ہوئی ہوگی کیونکہ چین کا ریشم نہایت ہی مشہور چیز تھی، ممکن ہے کہ ان کی صنعت و حرفت کے متعلق آپ ﷺ نے بہت ہی اچھا تاثر لیا ہو اور ان سے پوچھا ہو کہ تمہارے ملک سے یہاں تک آنے میں کتنے دن لگتے ہیں اور مثال کے طور پر انہوں نے کہا ہو کہ چھ مہینے لگتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک اندازہ قائم کرنے کیلئے یہ کافی تھا اور اس روشنی میں اب اس حدیث کو پڑھئے "علم سیکھو چاہے چین ہی جانا پڑے" جو تمہارے لئے دنیا کا بعید ترین ملک ہے، کیونکہ علم کا سیکھنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ ان ابتدائی چیزوں کے عرض کرنے کا منشا یہ تھا کہ قرآن مجید اورحدیث شریف میں علم حاصل کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے کیونکہ یہ انسانوں کیلئے مفید چیز ہے اور اسلام سے زیادہ مذہب کون سا ہو سکتا ہے جو انسانوں کو ان کے فائدے کی چیزیں بتائے۔
(خطابات بہاولپور سے ایک اقتباس)

