Baradaran e Yousuf, Aik Istaara, Aik Ishara
برادران یوسف، ایک استعارہ، ایک اشارہ

حضرت یوسف اس دور میں پیدا جب ستاروں کا علم عام تھا اور یہ تمام برج اور ستاروں کی چالوں سے لوگ واقف تھے اور ان علوم کی روشنی میں مستقبل کی پیشگوئیاں کرتے تھے۔ یہ دور کم و بیش اکیڈین دور سلطنت کا ہے۔ ایک بات حیرت انگیز ہے۔۔ اس تمام واقعہ میں جسے قران نے بھی بیان کرکے سند کر دیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے خواب کا جو زکر فرمایا کہ سورج، چاند اور 11 ستارے ان کو سجدہ کر رہے ہیں۔۔
ترجمہ: جس وقت یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے باپ میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو خواب میں دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ (4 یوسف)
تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سورج اور چاند کے علاوہ نظام شمسی میں تمام توانائیاں لگا کر 9 سیارے اب تک دریافت ہوئے ہیں۔۔ جن میں زمین شامل ہے۔ جبکہ سورہ یوسف میں زمین کے علاوہ 11 ستارے یا کواکب ہیں۔۔
عربی میں ہر لفظ کثیر المعنیٰ ہوتا ہے، کبھی حقیقی مفہوم میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی مرادی طور پر استعمال میں آتا ہے اور کبھی عربی روزمرہ اور محاورہ، تشبیہ و استعارہ کے عنوان سے۔ لفظ کوکب عربی زبان کی اس خوبی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اردو میں یہ لفظ ستارے یا سیارے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے دونوں ہی مراد لئے جاتے ہیں۔ تاہم عربی میں اس باب میں یہ لفظ صرف سیارہ کی نشان دہی کرتا ہے۔ جس میں اپنی روشنی نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ کسی بذاتہ روشن ستارے کے انعکاس نور سے دمکتا ہے۔ بقول علامہ ابن منظور، کوکب اس کرہ خلائی کو کہتے ہیں جس کی روشنی مستعار ہوتی ہے (لسان العرب، ج 12، صفحہ 981)
یہاں واضح رہے کہ شمس (سورج) سیارہ نہیں بلکہ ستارہ ہے اسی طرح قمر (چاند) بذات خود سیارہ نہیں بلکہ سیارہ زمین کا ذیلی ہے۔ اس کے باوجود علم نجوم میں سہولت و یکسانی کی خاطر انھیں سیارہ یا کوکب تصور کیا جاتا ہے۔۔ زمانہ قدیم میں نظام شمسی کے سورج اور چاند کے علاوہ مریخ، عطارد، مشتری، زہرہ، زحل بطور نجومی علم مطالعہ کئے جاتے۔۔ بعد میں جدید دور کے دیگر سیارے بھی نظام شمسی میں شامل کر لئے گئے۔۔
میں نے اپنے مضمون میں فلکیات (Astronomy) اور نجوم (Astrology) دونوں کو ایک ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ دونوں مختلف علوم ہیں۔ فلکیات ایک سائنسی علم ہے جو کائنات کے اجسام کا مطالعہ کرتا ہے، جب کہ نجوم ایک قدیم عقیدہ ہے جو ستاروں کی پوزیشن کو انسانی زندگی اور مستقبل سے جوڑتا ہے۔ لیکن یہاں اب قران کی حقانیت اور حضرت یوسفؑ کے خواب اور یعقوبؑ کا اس پر مہر ثبت کرنا کہ وہ سچا خواب ہے خواب دراصل انبیاء کرام کی سچی پیشگوئیاں ہوتے ہیں۔۔ اس خواب کے مطابق سورج اور چاند کے علاوہ 11 ستارے یا سیارے بنتے ہیں۔۔
اگر سیارے لئے جائیں جن کا زمین کے خاندان سے تعلق ہے تو ابھی 3 سیارے مزید نظام شمسی میں موجود ہیں، جو تا حال دریافت نہیں ہوئے۔ یا ابھی سائنسدان انہیں چھپا رہے ہیں۔۔ کیونکہ ان کے اثرات زمین پر واضح طور پر پڑ رہے ہیں۔۔ یہ سورہ یوسف اور خواب سے ظاہر ہے کہ وہ تمام influential سیاروں کا زکر کیا گیا ہے۔۔ جو اثرات یا طاقت تبدیلی رکھتے تھے۔۔ جنھیں حضرت یوسفؑ کے آگے مطیع کیا گیا۔۔ جن کو بھائیوں سے تشبیہ دی گئی اور سورج اور چاند کو ماں اور باپ سے کہ ان کے اثرات زمین پر زیادہ ہیں۔ زمین کو یوسف علیہ السّلام سے تشبیہ دی گئی اور مزید 11 ستارے جو زمین کے ساتھ مل کر 12 یعنی حضرت یعقوبؑ کے 12 بیٹے، یہود کے 12 قبائل یا 12 مزاج بنتے ہیں۔۔
اور اگر وہ تمام ستارے ہیں 11 اور اس کے علاوہ چاند اور سورج کا ذکر علیحدہ سے کیا گیا ہے۔۔ تو وہ سورج کی طرح کے 11 ستارے ہیں جو 11 برج بناتے ہیں اور ان کے اثرات کے زیر اثر زمین پر مختلف انواع کی ترقی اور تغیر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جسے آج کی زبان میں میگنیٹک فیلڈ کہا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرھ جس طرح چاند کی کشش سے سمندر اور پانی میں مختلف تبدیلیاں پہدا ہوتی ہیں اور سورج کی شعاعیں زندگی اور نمو کا باعث ہیں۔۔ انہی 11 ستاروں میں سے ایک شاید ثریا کا جھرمٹ ہو سکتا ہے۔ آسمان پر چند ستاروں کا یہ جھرمٹ سب سے نمایاں روشنی اسی جھرمٹ کی ہوتی ہے۔
زمانۂ قدیم میں یونانیوں کا خیال تھا کہ ستاروں سے زمین کے ہر واقعے کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ستاروں کے ذریعے کھیتی باڑی، طوفان اور موسم وغیرہ کے حالات جان لیا کرتے تھے۔ انھوں نے اسی مقصد کے لیے آسمان کے سب سے روشن حصے "ثریا" (Pleiades) کو آماجگاہ بنایا۔ اس جھرمٹ کا ایک نام پروین بھی ہے۔ ثریا کے ہر ستارے کو وہ ایک دیوتا سمجھتے تھے اور ہر ستارے سے الگ الگ کام منسوب کرتے تھے۔ قدیم ہیئت دان ٹالمی نے آسمان پر ثریا کی کل تعداد 48 بتائی تھی۔
جدید تحقیقات کے مطابق ثریا کا جھرمٹ دو ہزار چھوٹے ستاروں پر مشتمل ہے جن میں سے چھ سات کسی آلے کی مدد کے بغیر ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اٹیلس اور پیونی کی سات بیٹیوں کے ناموں کی نسبت سے یونانیوں نے ان سات ستاروں کو موسوم کیا تھا۔ انھیں اردو میں سات سہیلیوں کا جھمکا بھی کہتے ہیں۔۔
اب یا تو ہمیں نظام شمسی میں 2 سیارے مزید تلاش کرنے ہیں۔۔ کیونکہ قران حق ہے اور یا ان 11 ستاروں کا کھوج لگانا ہے جن کے برائےراست اثرات زمیں پر مختلف انواع اور اقسام کے افعال انجام دے رہے ہیں اور 4 بڑے انسانی رویوں پر اثر انداز ہیں۔۔ جن کی نشاندہی حضرت یوسف علیہ السّلام کے خواب میں 11 بھائیوں کی صورت میں کی گئی۔۔

