Aik Nayi Tehzeeb Ki Shuruat
ایک نئی تہذیب کی شروعات
میرے ایک سینئر ترین کولیگ تھے۔ عابد رضوی صاحب ریڈیو پاکستان کوئٹہ سے رٹائرڈ تھے ایک علمی اور ادبی شخصیت ہیں۔ اور ہمارے بلوچستان کے NGO سیکٹر اور خصوصا کئی لوکل این جی اوز کے روح رواں تھے۔ چونکہ NGO سیکٹر میں کام کرنے کے مخصوص طریقے ہوتے ہیں مگر وہ اس زمانے کے افراد میں سے تھے جن کے غلام آنکھ کا اشارہ سمجھ جاتے۔۔ جبکہ ہم کام کے لئے کئی فارمیٹ بھجواتے اور پھر کام کرتے بقول غالب وہ کام طعنوں اور طنزو ں سے نکالنا چاہتے تھے۔۔ جو میں ہونے نہیں دیتا تھا۔۔ تو ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے نفرت کی حد تک محبت کرتے تھے۔
ایک روز میرے پاس آئے میرے کمرے میں اور مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ میں سمجھ گیا آج پھر دور کی کوڑی لائے ہیں۔۔ میں نے کہا سر کوئی کام ہے! تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ تم اور عامر لیاقت حسین مجھے شروع سے اچھے نہیں لگتے۔ مگر جب سے اس نے داڑھی رکھی ہے۔۔ مجھے اور بھی زہر لگتا ہے۔۔ میں جواب میں ہنس پڑا۔۔ کیونکہ میری داڑھی تھی۔۔ اور اکثر لوگ کہا کرتے تھے کہ میری شباہت عامر مرحوم سے کافی ہے۔۔
دو باتیں ہم دونوں کی لوگ مشترک سمجھتے وہ اسلامی تعلیمات کی من مانی تشریحات۔۔ چونکہ مجھے عامر مرحوم کے اسلامی نقطہ نظر اور پارہ صفتی بالکل پسند نہ تھے تو، میں شروع دن سے ہی عامر مرحوم کا ناقد رہا ہوں۔۔ اور یہ بات پورا پاکستان جانتا ہے کہ عامر لیاقت حسین کے دو قسم کے فالورز ہیں انتہائی ناقد اور شدید پسند کرنے والے۔۔ لیکن عجیب قسمت رہی اس آزاد مرد کی کہ محبت اور نفرت کرنے والے بہرحال انہیں تمام عمر فالو کرتے رہے۔۔
میرے مولا علیؑ کا قول ہے کہ! اقتدار، اِختیار اور دولت انسان کو بدلتے نہیں بے نقاب کردیتے ہیں۔۔
بس مرحوم کو جو عزت اللہ کریم نے نبی کریمﷺ اور اہلبیتؑ کی محبت وسیلے عطا کی وہ اس سے سنبھالی نہیں گئی۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک عالم ایک سلیبریٹی کا ڈارک پہلو دن بدن لوگوں پر کھلتا چلا گیا۔۔ اب یہ قدرت کے قوانین ہیں۔ شائد اسے جلدی جانا تھا اور جو عزتیں وہ اچھالتا رہا تھا اور جو پھبتیاں وہ اپنے مد مخالف پر کستا رہا تھا۔۔ اس کی صفائی بہت ضروری اور جلدی تھی تاکہ پاک صاف ان کے حضور پہنچ جائے جن سے محبت کا دعویدار رہا۔۔
شائد یہی شفاعت ہے کہ دنیا سے صاف کرکے بلا لیا جائے۔۔ تو اپنے آخری ایام میں وہ بہت رویا، بہت نادم رہا اور رب تو ستر ماں سے زیادہ مہربان ہے۔۔ اور نبی کریمﷺ تو رحمت العالمین ہیں۔۔ تو جو صفائی مطلوب تھی ہوئی اور عامر ہلکا پھلکا رب کے حضور جا پہنچا۔۔ اس پر مجھے حضرت ماعزؓ کا واقع یاد آگیا۔۔ مسلم اور نسائی کی حدیث پاک ہے کہ
"حضرت بریدہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالکؓ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا ناس ہو، جاؤ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو، اور توبہ کرو۔ اُنہوں نے پھر تھوڑی دیر بعد آکر عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ ﷺ نے پھر اُسی طرح فرمایا، اُنہوں نے پھر تھوڑی دیر بعد آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ ﷺ نے پھر اُسی طرح فرمایا، حتی کہ چوتھی بار اُن سے آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: میں تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟ اُنہوں نے عرض کیا: زنا سے۔ آپ ﷺ نے(لوگوں سے) اُن کے متعلق پوچھا: اِس کا ذہنی توازن تو خراب نہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: نہیں، وہ کوئی پاگل نہیں ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: کیا اِس نے شراب پی ہے؟ ایک شخص نے کھڑے ہو کر اُن کا منہ سونگھا تو شراب کی بدبو محسوس نہیں کی۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے زنا کیا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: ہاں، پھر آپ ﷺ نے اُنہیں رجم کرنے کا حکم دیا، اِس کے بعد حضرت ماعزؓ کے متعلق لوگوں کے دو گروہ بن گئے، بعض کہتے: ماعز ہلاک ہو گئے اور اِس گناہ نے اُنہیں گھیر لیا اور بعض لوگ کہتے: ماعز کی توبہ سے کسی کی توبہ افضل نہیں ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر عرض کیا: مجھے پتھروں سے مار ڈالیے، حضرت بریدہؓ بیان کرتے ہیں کہ دو، تین دن صحابہ کرام میں یہی اختلاف رہا، پھر ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے درآں حالیکہ صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ سلام کرنے کے بعد تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: ماعز بن مالک کے لیے استغفار کرو، صحابہ کرام نے کہا: اللہ تعالیٰ ماعز بن مالک کی مغفرت فرمائے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ماعز نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے تمام اُمت پر تقسیم کر دیا جائے تو (بخشش کے لیے) سب کو کافی ہو گی۔ "
موت سے کچھ عرصہ قبل مرحوم نے حضرت عائشہ سلام اللہ علیہا پر کتاب بھی لکھی۔۔ چونکہ اہل بیتؑ سے محبت رکھتا تھا لہذا ہمیشہ سے ایک legend رہا، جدید دنیا کی کئی نئی شروعات کا بانی رہا۔۔ اور مر کر اس نے ہمارے معاشرے کو ایک نئی تہذیب اور ایک نئی جہت سے روشناس کرایا ہے۔۔
آج تمام سوشل میڈیا جو کہ میل ڈامننٹ male dominant ہے اس بات کا رونا رو رہا ہے کہ عامر کی موت کا سب آخری تین شادیاں جن میں سے ایک مشکوک ہے تھیں۔۔ یعنی طوبی، ہانیہ اور دانیہ۔ حالانکہ عامر کی موت کا سب سوشل میڈیا ہے جس نے ریٹنگز کی خاطر گند میں خوب خوب حصہ ڈالا۔
لیکن جو بات عامر نے مڑ کر آج کی نوجوان خاتون کو سکھائی ہے شائد گزشتہ 30 سالوں میں اسے کوئی اس طرح نہیں سمجھا پایا۔۔ وہ کچھ یوں ہے کہ جب سے میڈیا فعال ہوا ہے۔۔ اور ضیاء الحق کے بنائے ہوئے حدود آرڈیننس نے جس طرح عورتوں کی عزت تھانوں میں، عدالتوں میں اور معاشرے میں اچھالی ہے اتنی کسی مرد کی نہیں اچھالی گئی۔ عورت پر ہمیشہ سے رشتہ ازدواج ہو یا دوستی ہو یا خدانخواستہ ناجائز تعلقات ہی ہوں۔۔ بریک اپ طلاق پر اس کی عزت کی دھجیاں اڑائی گئیں۔
عدالتوں میں زنا بالجبر پر رپورٹ ہونے والی خاتون جس سے ایک یا دو مردوں نے زیادتی کی ہوتی۔ لیکن صحافی، عدالت اور پولیس اس کی واردات کا چسکا لیتے۔ اخبار، سوشل میڈیا اس کے بال بال کی کہانی سناتا۔۔ اور اس پر الزام رکھنے ولا مرد سرخرو ہوتا۔ اور آزاد مردانگی کے ساتھ زندگی بسر کرتا۔۔ لیکن متاثرہ عورت، اس کی اولاد، والدین رشتہ دار کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔۔ یہاں تو صرف عامر مرا۔۔ وہاں برداشت نہ کرتے ہوئے۔ ماں یا باپ بھی اس متاثرہ عورت کے ساتھ مر جاتا۔۔ عورت یا تو خودکشی کر لیتی اور یا اسے اس کا غیرت مند رشتہ دار اپنی ناک کی خاطر غیرت کے نام پر قتل کر دیتا۔۔
لیکن شکریہ عامر اللہ تمہاری قبر کو نور سے بھر دے۔۔ تم نے آج کی گھبرائی بلیک میل ہوتی بچی کو یہ سکھایا کہ "مرد کو بھی درد ہوتا ہے۔ " یہ درد ہی ہے کہ پاکستان کی تمام مردانگی کوئے کی طرح کائیں کائیں کر رہی ہے۔۔ یہ اس لئے نہیں کہ عامر کا دکھ ہے بلکہ یہ اس لئے کہ اب عورت کو بھی علم ہو چکا ہے کہ جتنی ذلت اور تکلیف کوئی بھی عورت اپنی قابل اعتراض تصاویر اور گفتگو پر سہتی ہے اور خودکشی پر مجبور ہوتی ہے۔۔ اس سے زیادتی کرنے والا مرد بھی اسی طرح اذیت اور ہارٹ اٹیک کی طرف جا سکتا ہے۔۔ اس کو بھی اولاد اور سوسائیٹی کا اتنا ہی غم ہوتا ہے۔ اس کی بھی عزت جانے کا اسے اس کے خاندان کو رنج ہوتا ہے اور یہی رنج اس کی بھی جان لے سکتا ہے۔۔ پہلے تو ایک مہذب معاشرے کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ایک تعلق اگر نہ چل سکے تو اسے عزت سے ختم کیا جاتا ہے۔۔ لیکن یہ ناہموار معاشرے کے مرد کا نام نہاد بھرم بھی عامر مرحوم جاتے جاتے توڑ گیا۔۔ اب اگر کسی لڑکی کی کوئی تصویر یا ویڈیو کوئی مرد بناتا ہے تو عورت بھی پلٹ کر اس پر وار کر سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ دونوں انسانیت کے طبقے سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔۔
آج سے بہت سال پہلے میرا ایک دوست تھا جسے ایک سو دس سال سزا ہوئی تھی۔ کمزور سا بندہ تھا۔ لیکن جیل سے جلد نکل آیا۔۔ کیونکہ وہاں جیل میں بند ایک سردار کا ساتھ دیا اور پولیس ہی کو پھنسا دیا۔۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ یہ سب کیسے کیا۔۔
تو وہ بہت ہنسا اور بولا۔۔ مجھے سردار نے کہا تھا کہ تم پولیس پر ایک کیس بناو۔۔ ہم اس کو بنیاد بنا کر اپیل کریں گے۔ اور مجھے پولیس روزانہ کی بنیاد پر مارا کرتی تھی کہ میں غریب انسان تھا۔۔ میں نے فیصلہ کیا کہ ان سے بدلہ لینا ہے۔۔ میں نے ان جیل کی سلاخوں کو خوب گرم کرایا اور پھر اس سے جسم کے مختلف حصوں کو داغ لگوائے۔۔ اور مقدمہ کر دیا کہ پولیس مجھ پر گرم سلاخوں سے تشدد کرتی ہے۔۔ اور ہم ضمانت پر باہر آگئے۔۔ میں نے اسے کہا تم اتنے کمزور ہو اور اتنے طاقتوروں سے پھڈا کیسے مول لیا۔۔ تو جو بات اس نے کہی وہ میری زندگی کے ہر مشکل مرحلہ میں مشعل راہ بنی۔۔ اس نے کہا۔۔
"لالا! جس دن مجھے پتہ چل گیا نا کہ مضبوط سے مضبوط شخص کو بھی مار کا درد اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ایک کمزور بندے کو۔۔ تو میں نے اپنا ضبط بڑھانا شروع کیا۔ اور اگلے کا ضبط توڑنے کے لئے اس پر پے درپے حملہ"۔
بس عامر ہمیں یہ بات سمجھا گیا ہے۔ کہ مضبوط سے مضبوط آدمی کو بھی درد ہوتا ہے۔۔ یہ آج کی ذلیل اور رسوا ہوتی عورت کے لئے آزادی کی نوید ہے۔۔
اللہ کریم نبی کریمﷺ کے وسیلے واسطے عامر لیاقت کی مغفرت فرمائیں۔۔