Abdullah Ki Billi, Ambani Ka Kutta (2)
عبداللہ کی بلی ، امبانی کا کتا (2)
ہمارے معاشرے میں فزکس، کیمسٹری میتھس کا ٹیچر آئے تو بچہ پہلے سے ڈرائنگ روم میں تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ جب دروازے کی گھنٹی بجے تو سر اپنا نام بتاتا ہے جبکہ باپ سے لیکر تمام خاندان "سر آئے ہیں۔۔ سر آئے ہیں " کی دوڑ لگا دیتا ہے۔ اور اگر بچہ دو دن دس منٹ لیٹ ہو جائے تو استاد کی دھمکی ہوتی ہے کہ میرے پاس ٹائم نہیں تیار رکھیں بچے کو۔۔ اور دوسری طرف بیچارہ قران کا معلم جو خود ہی اپنا تعارف "قاری صاحب" کہہ کر کرواتا ہے۔۔ تب بھی بچہ اور اس کا خاندان اس کو صاحب ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔۔
یقین کریں اس بچے کی باتوں کے بعد میں نے بھارت کے سب سے امیر شخص امبانی کے کتے کو سرچ کیا تو معلوم ہوا یہ نایاب نسل کا کتا ہے اور بھارتی ایک کروڑ میں خریدا گیا تھا۔۔ اسی طرح رونالڈو کی worth بھی مجھے سرچ کرنے سے معلوم ہوئی۔ فٹبال واقعی بڑی آمدنی کا کھیل ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ بھی سرچ کرنے سے میرے احاطہ علم میں آیا کہ ایک لاکھ روپے کا فون رکھنے والے آج کل غریبوں میں شمار ہوتے ہیں۔۔ لیکن میں ادھیڑ عمر میں یہ سب جان رہا ہوں۔۔ اور 6، 7 سال کا بچہ اپنے ہم عمر بچے کو یہ باتیں بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم یوٹیوب پر دیکھو نا۔۔ اور وہ دوسرا بچہ اپنی بلی، اپنے بیٹ کو اپنی کل جائیداد سمجھ کر خوش ہے۔۔ باپ کے کہنے پر ساڑھے سات بجے دوستوں سے عید ملنے نکلا ہوا ہے۔۔
مجھے یاد آیا، ہمارے پرانے گھر کے ساتھ ایک نوجوان جوڑا شادی ہو کر آیا تھا۔۔ جب اس کی بیوی کو پہلی خوشخبری ملی تھی تو اس نے کولڈ ڈرنک اور بازاری ڈبوں کے جوس پینا چھوڑ دئے تھے۔۔ میری زوجہ نے پوچھا تو بولی بھابھی ابھی میرا بچہ تخلیق ہو رہا ہے۔ ابھی سے اس کے ننھے جسم میں زہر بھر دوں۔۔ جب وہ بچی پیدا ہوئی اور تین سال کی عمر تک اس کی والدہ جہاں جاتی بلیک کافی کا بوتل میں شربت بنا کر لے جاتیں۔۔ ہمارے گھردعوت پر ائین تو راز کھلا کہ یہ کافی کا کالا شربت کیوں ہمراہ لاتی ہیں۔ تاکہ جب سب کولڈ ڈرنک پیئں تو بچی بھی مانگے گی وہ اپنے گلاس میں ڈال کر اس کا گھونٹ بھرتیں۔۔ تاکہ بیٹی سمجھے ماں بھی وہی پی رہی ہیں۔۔
پھر جب بچی مانگتی تو اس کے منہ سے وہی گلاس لگا دیتی۔۔ بچی برا سا منہ بنا کر چھوڑ دیتی۔۔ ایک دن میں نے اسے کوک پلانے کی کوشش کی تو بچی نے تلخ تجربہ کی بنیاد پر انکار کر دیا۔۔ اور پینے پر راضی نہ ہوئی۔۔ مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ اس بچی کی صحت پر اس کا کیا اثر ہوا ہو گا۔۔ مگر مجھے یقین ہے نوجوان ماں کی یہ قربانی اور اولاد کی خاطر ثابت قدمی اس بچی کا کردار بنا جائے گی۔۔ کہ قربانی کیسے دی جاتی ہے۔۔ اولاد کی تربیت کے لئے خود پر کام کرنا پڑتا ہے۔ اپنی خواہشات مارنی پڑتی ہیں تب اولاد انسان کی بچہ بنتی ہے ورنہ دو ٹانگوں پر چلنے والے خواہش نفس کے پیچھے اندھے جانور۔۔
کچھ دن پہلے میں اور میری زوجہ ایک بڑے ہوٹل میں کھانے پر گئے۔۔ وہاں ایک نوجوان جوڑا اور ان کا شائد 3 سے 5 سالہ بچہ بھی کھانا کھا رہے تھے۔۔ میاں اپنے فون میں مصروف تھے۔۔ جبکہ بیگم کے فون پر بچہ مصروف تھا۔۔ ماں کی کال آئی اور اس نے بچے سے فون کیا لے لیا۔۔ بچہ ایک اسپرنگ کی مانند اچھلنا لگا۔ پھر شور کرنا شروع ہوا پھر اس کی فلک شگاف چیخیں۔
باپ گھبرا گیا اسے اٹھانے لگا تو وہ سیٹ میں پھنس گیا۔۔ اپنا فون کھول کر شرمندگی سے بچے کو دیا تو اس نے اسے زمین پر پٹخ دیا۔۔ اور ماں کا فون مانگنے لگا۔۔ ماں نے شرمندگی سے بات ختم کی اور فون بیٹے کو دیا۔۔ چونکہ ہم ان کے قریب ترین بیٹھے تھے تو شرمندگی سے بولی آنٹی کیا کریں آج کا بچہ مانتا ہی نہیں یہ جنریشن بہت ضدی اور خود سر ہو گئی ہے۔۔ میری بیگم نے اسے دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔۔ اور مجھ سے مخاطب ہوئی۔۔
میں جو ابھی تک اس واقعے سے سن کھڑا تھا۔۔ بیگم مجھے کانٹا چھوٹے بولی۔۔ کسی گاوں میں ایک فقیر صبح سویرے داخل ہوا۔۔ تو گاوں کے نوجوان کتے اس کے کپڑوں پر پڑ گئے۔ بھاگتے کپڑے بچاتے وہ ایک دیوار پر چڑھ گیا۔۔ دوسری جانب کیا دیکھتا ہے کہ چند کتے سایہ دیوار میں آرام سے سو رہے ہیں۔۔ اس نے دو تین پتھر اٹھائے اور سوئے کتوں کو مارے وہ چیختے بھونکتے دوڑ کھڑے ہوئے۔۔ لوگوں نے کہا۔۔ واہ سائیں! تیرا انصاف۔۔ تنگ کسی نے کیا اور مارا کسی کو۔۔
تو سائیں جی دیوار کے اوپر سے جلال میں بولا۔۔ قصور ان نوجوان کتوں کا نہی۔۔ ان بڈھے کتوں کا ہے۔ اپنے آرام کی خاطر انہیوں نے ان کی تربیت ہی نہیں کی۔۔ اب ان کا جو دل کرتا ہے وہ کرتے ہیں۔۔ میں نے بیگم کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔ تو وہ سوپ پینے لگ گئی۔۔
بخاری شریف اور مسلم شریف کی متفق علیہ حدیث ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ! کئی ایسے لوگ بھی ہیں کہ ہم اُن جیسے عمل نہیں کرسکتے۔ یعنی اللہ کے ایسے محبوب، مقرب بندے ہیں جن کے عمل بڑے اُونچے ہونگے، اُن کے درجے اور مقامات بڑے اُونچے ہونگے۔ ہم اُن جیسے عمل نہیں کرسکتے، اُن جیسا تقویٰ ہمارے پاس نہیں ہو گا، اُن جیسی ریاضت ہمارے پاس نہیں ہو گی، اُن جیسا صدق واخلاص ہمارے پاس نہیں ہوگا، اُن جیسے اخلاق ہمارے نہیں ہونگے۔ ہماری کمیاں ہیں جبکہ اُن کے اونچے اعمال اور درجات ہیں۔ تو کیا ہم اُن کے ساتھ مل سکتے ہیں جبکہ ہمارے اور ان کے اعمال میں بڑا فرق ہے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَلَهُ مَا اکْتَسَبَ۔
"(روزِ قیامت) ہر شخص اُس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے، اور اُس کا عمل اُس کے ساتھ ہوگا"۔
یعنی وہ جس کے عمل اُونچے ہیں اُس کے ساتھ، جس کے عمل نیچے ہیں محبت کرے گا اور اُن کی سنگت میں، محبت میں جڑ جائے گا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اُن سنگت رکھنے والوں کو اُن کے ساتھ جنت میں لے جائے گا۔
میں سوچتا ہوں۔ آج کا بچہ اینڈرائید فون سے وابستہ ہے۔۔ کیونکہ اس سے محبت اس کے ماں باپ نے اسے سکھائی ہے۔۔ اگر یہ آج اپنے رویوں میں تشدد پسند۔ بے لحاظ، بے لگام ہے۔ عورت کو مرد اور مرد کو عورت سے کیا نفع حاصل ہو سکتا ہے یہی مطمع نظر ہے۔۔ تو ایک روبورٹ کی دوستی سے آپ کا بچہ اور معاشرہ ربوٹک Robotics یا Algorithm اعدادوشمار سیکھے گا۔۔ جذبات، محبت، شفقت جذبہ جان نثاری نہ تو موبائل سکھائے گا اور نہ ہی معاشرہ۔۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی
حضرت اسماعیلؑ کو باپ کی بات پر قربان ہونا اس ماں نے سکھایا تھا جسے ابراھیمؑ لق ودق صحرا میں چھوڑ آئے تھے۔۔ آج کی ماں، باپ یا اولاد ہوتے تو شائد باپ کے قتل کا منصوبہ بناتے۔۔
ایلون مسک، رونالڈو، مکیش امبانی جدید ترین کاروں، سونے کے موبائل امیر ترین طاقتور ترین کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ قیامت کے دن ان کے ساتھ آپ کا بچہ اٹھایا جائے گا جس کی محبت آپ نے اس کے دل میں چاہتے یا نہ چاہتے پیدا کی ہے۔۔ اس کا اندازہ شائد آپ آج بھی کر سکتے ہیں۔۔