Abdullah Ki Billi, Ambani Ka Kutta (1)
عبداللہ کی بلی ، امبانی کا کتا (1)
میری عادت ہے کہ جب سے بچے پیدا ہوئے میں کمرے میں سگریٹ نہیں پیتا۔ کیونکہ ان کے نرم و نازک پھیپھڑوں کو اس passive smoking کا عادی نہیں بنانا چاہتا تھا۔ اب بچے جوان ہو گئے ہیں تب بھی میں سگریٹ باہر صحن میں آ کر پیتا ہوں۔
ابھی میں نے ایک لمبا کش ہی لیا تھا اور دھوئیں کے مرغولے سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ پڑوس میں کھیلتے دو بچوں کی باتوں کی جانب نا چاہتے میران دھیان چلا گیا۔ یہ ہمارے ہمسائے کا بڑا بچہ جو ابھی شائد چھ یا سات سال کا ہو گا۔ اپنے محلے میں رہنے والے ایک کلاس فیلو دوست سے گفتگو کر رہا تھا۔ میں نے اپنی کرسی کھینچ کر دیوار کے قریب کر دی کیونکہ دونوں بہت دلچسپ گفتگو کر رہے تھے۔ گفتگو کیا تھی! ایک نئی جنریشن کی تصویر تھی۔ میرے ہمسائے کے بیٹے کا نام ہم علی رکھ لیتے ہیں۔ اور اس کے دوست کا نام عبداللہ
عبداللہ۔۔ میری امی نے کہا ہے کہ جاو دوستوں کے ساتھ کھیلو۔
علی۔۔ یار ہم کیا کھیلتے ہیں جو رونالڈو کھیلتا ہے۔ دنیا کا سب سے مہنگا پلئیر ہے۔ تمہیں پتہ ہے اس کے پاس ایک سال میں کتنے پیسے ہوتے ہیں۔
عبداللہ۔ نہیں۔ رولانڈو کون ہے؟ میری امی نے مجھے بیٹ لے کر دیا ہے۔ بس اب بال لے کر کھیلیں گے۔
علی۔۔ ابے یار۔۔ تو رونالڈو کو نہیں جانتا؟ وہ فٹ بال کھیلتا ہے۔ یہ بیٹ وغیرہ چھوڑ۔۔ تو فٹ بال لے۔۔ گیم تو صرف فٹ بال ہے سب سے زیادہ پیسہ اس میں ہے۔ رونالڈو ملین ڈالروں میں کماتا ہے (شائد بچہ بھول گیا کہ کتنے ڈالر)۔ تم ایسے کرو بیٹ کو واپس کر دو اور فٹبال لے لو۔ مجھے بھی بابا نے یہ فٹبال لے کر دیا ہے لیکن یہ عام فٹبال ہے۔ رونالڈو کا تو فٹبال بھی ڈالروں میں ہوتا ہے۔
عبداللہ۔۔ (بات تبدیل کرتے ہوئے) میری امی نے مجھے ایک بلی گھر میں لا کر دی ہے اور کہا ہے اس کا خیال رکھو۔۔ (شائد عبداللہ کو رونالڈو سے کوئی لگاو نہ تھا)
علی۔۔ بلی۔۔ اوہ یار بلی بھی کوئی پالنے کی چیز ہے۔ ہمارے گھر میں ہر وقت گھسی ہوتی ہیں۔ پالنا ہے تو"کتا" پالو۔۔ مکیش امبانی نے کتا پالا ہوا ہے۔۔ اس کی قیمت کروڑ روپے ہے۔۔ میرے بابا کہتے ہیں کہ تمہیں لینا ہے تو اچھی نسل کا کتا پالو۔۔
عبداللہ۔۔ اوہ۔۔ اتنا مہنگا کتا؟
علی۔۔ یہ تو کچھ بھی نہیں۔۔ تجھے پتہ ہے دنیا کا سب سے امیر آدمی کون ہے؟
عبداللہ۔۔ (نے جو منہ سے انکار کی آواز نکالی اسے اردو میں لکھنا تھوڑا مشکل ہے بس آپ سمجھ لیں کہ) نہیں!
علی۔۔ ابے یار تو تو بالکل بےوقوف ہے۔۔ سب سے امیر آدمی ایلون مسک ہے۔۔ ابھی وہ راکٹ بنا رہا ہے۔۔ اور اس کی گاڑیوں کی اپنی کمپنی ہے۔ سب سے مہنگی گاڑیاں بناتا ہے۔۔ تجھے پتہ ہے بابا کا ٹویٹر اکاؤنٹ اس نے خرید لیا ہے۔۔ اور بابا اس کا کچھ بھی نہیں کر سکتے!
عبداللہ۔۔ کیوں کچھ نہیں کر سکتے!
علی۔۔ وہ امیر آدمی جو ہے اور بابا اتنے امیر نہیں ہیں۔۔ چل میرے فٹبال سے باہر کھیلتے ہیں اور دونوں گیٹ کھول کر باہر نکل گئے۔۔
میں حیران تھا کہ اس 6، 7 سال کے بچے کا اتنا نالج اور اتنے اچھے طریقے سے ان تمام لوگوں کے نام لینا۔ بالکل دم بخود بیٹھا تھا کہ۔۔ انہی (ہمسائے) کے دروازے پر گھنٹی بجی۔۔ کچھ دیر بعد پھر گھنٹی بجا۔۔ اب دروازہ چابی سے کھٹکھٹایا جا رہا تھا۔۔ علی کی دادی نے اندر سے تھکا ہوا "کون ہے پوچھا" جواب میں ایک منمنی سے آواز آئی۔۔ "میں ہوں جی۔۔ قاری صاحب"
دادی اماں بولیں۔۔ قاری صاحب علی باہر کھیلنے گیا ہے۔۔ اسے ڈھونڈیں اور لے آئیں۔۔
"جی اچھا" قاری صاحب نے فرمایا۔۔ اتنے میں علی بھاگتا آیا۔ قاری صاحب۔۔ قاری صاحب۔۔ آپ آج جاو۔۔ ابھی میں کھیل رہا ہوں۔۔
قاری صاحب نے اندر دادی سے کہا بچہ نہیں آ رہا۔۔ دادی اماں بولیں۔۔ سن لیا ہے میں نے کیا کروں۔۔ آپ ایسا کریں پھر کل آجائیں۔۔
قاری صاحب کمال تابعداری سے۔۔ "جی اچھا " بول کر رخصت ہوئے۔۔
ابھی یہیں کہانی ختم نہیں ہوتی۔۔ ابھی رکو زرا۔۔ جرا صبر کرو۔۔ کلائمکس ابھی باقی ہے۔۔
میں عید نماز پڑھ کر گھر لوٹا تو علی کے دروازے پر ایک چھوٹا سا بچہ کھڑا۔۔ اپنے ننھے ہاتھوں سے گیٹ کھٹکھٹا رہا تھا کیونکہ اس کا ہاتھ گھنٹی تک نہیں پہنچتا تھا۔۔ مجھے علم تھا کہ میرے ہمسائے اگر بچوں نے اسکول نہ جانا ہو تو دوپہر کے بعد گیٹ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ کئی مرتبہ اپنے کمرے سے تنگ ہو کر میں نیچے آ کر گیٹ پر کھڑے ان کے مہمانوں سے معذرت کر چکا ہوں کہ یہ گیٹ نہیں کھولیں گے۔۔ مجھے آرام کرنے دیں۔۔ آپ انہیں فون کرلیں شائد آپ کی سنوائی ہو جائے۔
خیر میں نے بچے سے کہا بیٹا ابھی شب سو رہے ہوں گے۔ آپ شام کو آنا۔۔ وہ کہنے لگا "ابو نے کہا ہے کہ جاو صبح سویرے اپنے دوستوں سے عید مل کر آو" انکل علی نماز پر گیا تھا؟
میں نے اس کا ننھا ہاتھ پکڑ کر کہا "بیٹا مجھے معلوم نہیں۔۔ چلو تم اور میں مل لئے بابا کو بتانا، ایک انکل دوست مل گئے تھے۔۔ اس نے "ٹھیک ہے" کہا اور دوڑ گیا۔۔
کچھ دوست عید ملنے آئے تھے انہیں دروازے پر چھوڑا تو ہمسایہ اپنے بیٹے علی سے ہنسی مذاق کر رہا تھا۔ پہلے سوچا انہیں بتاوں کہ علی کا دوست آیا تھا۔ لیکن خاموش رہا۔۔ گیٹ سے کمرے تک جاتے جو میں نے سنا وہ بھی ایک حیران کن گفتگو تھی۔۔
بابا۔۔ علی سنا ہے تمہیں کسی دوست کا خط گیٹ کے نیچے سے ملا ہے۔۔ سچ سچ بتاو وہ کون تھی۔۔ جو چھپ چھپ کر تمہیں خط دے گئی۔۔
علی۔۔ نہی بابا وہ عبداللہ نے خط لکھا کہ میں تم سے ناراض ہوں تم مجھ سے ملنے نہی آئے۔۔
بابا۔۔ میں نہی مانتا ضرور یہ لڑکی کا چکر ہے۔۔ سچ بتاو ورنہ گھر کے کیمرے سے دیکھتا ہوں ابھی۔۔ چلو! یہ بتا دو کیسی دکھتی ہے۔۔ ٹیٹ tyt تو ہے نا(یہ کوئٹہ والے کسی زبردست چیز کے لئے آپس میں استعمال کرتے ہیں )۔۔
اب علی مچلتے اور لجاتے ہوئے بولا۔۔ نہی نا آپ مجھے تنگ نہ کریں وہ میرا بوائے دوست ہے۔۔ باپ اور بیٹا دونوں ہنستے رہے اور میں کمرے میں آگیا۔۔
بہت دکھ ہوا کہ اس بچے کے بالغ ہونے میں ابھی 10 سال ہیں اس کی تربیت کن اصولوں پر کی جا رہی ہے۔۔