15Wi Sadi Ki Mumaslaten
پندرہویں صدی کی مماثلتیں

بحثیت مذہب کے ایک ادنٰی طالب علم مجھے اپنے دور طالبعلمی میں تقابل ادیان پڑھنے کا موقع ملا تب تک اسلام کی 15 وین صدی کی ابتداء ہو چکی تھی۔۔ لیکن جب میں عیسائیت کی 15 وین صدی پر پہنچا تو میں حیراں و پریشان ہوگیا۔۔ اس حد تک حالات کی مماثلت، معاشرتی، سیاسی عدم برداشت، عیسائیت کا بیرون عیسائیت ایک بہت برا تصور، دیگر اقوام کے لئے ناقابل قبول اور داخلی انتشار، مذہبی جنونیت، کسی کو بھی مذہبی الزامات لگا کر فتوے جاری کرنا۔۔ سر بازار عوام کے ہاتھوں اپنے مخالفین پر مذہب کی بے حرمتی کے الزمات لگا کر قتل کرانا، سرعام عوامی عدالتوں سے پھانسی دینا۔۔ مذہبی طبقہ کی لوٹ مار۔ جنت کی خرید و فروخت اور مذہب کا سیاست میں اثر و رسوخ، عمل دخل اور بلیک میلنگ، ہمسایہ ممالک میں برائےراست مداخلت اور ان کے وسائل پر قبضے۔۔ اس صورت میں وہاں مذہب سے بے زاری کی تحریک جسے نشاۃ ثانیہ(Renaissance) کہا جاتا ہے کا ابھرنا تھا۔۔
میں نے AI Gemini کو گزارش کی کہ مجھے 15 ویں صدی کی عیسائی معاشرے کی ایک عکاسی کر دیں۔۔ جو اس نے لکھا ہے آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔۔
پندرہویں صدی: عیسائیت کا زوال اور نشاۃ ثانیہ کا طلوع۔۔
پندرہویں صدی یورپ کی تاریخ کا ایک ایسا اہم اور پیچیدہ دور تھا، جو ایک طرف عیسائیت کے اندرونی انتشار، بدعنوانی اور ظلم و ستم کا گواہ تھا، تو دوسری طرف نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کی صورت میں ایک نئے فکری، سائنسی اور فنی دور کا آغاز تھا۔ یہ صدی دراصل قرون وسطیٰ کی تاریکی سے نکل کر جدید دور کی روشنی کی طرف سفر کا نقطۂ آغاز تھی۔
چرچ کا انتشار: پوپ کا بحران اور مذہبی بدعنوانی۔۔
اس صدی کا آغاز عیسائی دنیا کے لیے ایک خوفناک مذہبی بحران سے ہوا، جسے مغربی فرقہ واریت (Western Schism) کہا جاتا ہے۔ ایک ہی وقت میں دو یا تین پوپ مختلف شہروں سے اپنے آپ کو حقیقی پوپ قرار دے رہے تھے، جس نے عیسائیوں میں شدید بے یقینی اور الجھن پیدا کی۔ اس کے علاوہ، چرچ کے اعلیٰ عہدیداروں کی بدعنوانی، عیش و عشرت اور سیاسی مداخلت نے مذہبی اداروں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔ مذہبی عہدوں کی خرید و فروخت (Simony) اور سب سے بڑھ کر بخشش ناموں کی فروخت (Indulgences) نے چرچ کو ایک کاروباری ادارہ بنا دیا تھا، جس نے عام لوگوں کو بہت مایوس کیا۔
ظلم و ستم اور توہم پرستی کا عروج
پندرہویں صدی میں مذہب کی بنیاد پر تشدد اور ظلم و ستم عام تھا۔ جن س (Jan Hus) جیسے مذہبی مصلح کو محض چرچ کی بدعنوانیوں پر سوال اٹھانے کی پاداش میں زندہ جلا دیا گیا۔ اس واقعے نے ہوسی جنگوں (Hussite Wars) کو جنم دیا۔ اسی دوران ہسپانوی تفتیش (Spanish Inquisition) جیسی مذہبی عدالتیں قائم ہوئیں، جن کا مقصد ہر طرح کی مذہبی بدعت کو ختم کرنا تھا۔ ان عدالتوں نے ہزاروں افراد کو شک کی بنا پر تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس دور میں جادوگری کا خوف بھی اپنے عروج پر تھا۔ یہ خوف چرچ اور ریاست کے لیے ایک طاقتور سیاسی ہتھیار بن چکا تھا۔ مخالفین کو ختم کرنے کے لیے ان پر جادوگری کا جھوٹا الزام لگایا جاتا تھا۔ جادوگروں کے شکار (Witch Hunts) میں ہزاروں بے گناہ افراد کو، جن میں اکثریت عورتوں کی تھی، زندہ جلا دیا گیا۔ جان آف آرک (Joan of Arc) کو بھی اسی الزام میں 1431ء میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔
نشاۃ ثانیہ کا طلوع: ایک فکری انقلاب۔۔
جہاں ایک طرف عیسائیت ان مشکلات کا شکار تھی، وہیں دوسری طرف نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ یہ ایک ایسی فکری تحریک تھی جس نے یورپ کو قرون وسطیٰ کی تاریکی سے نکال کر علم، سائنس اور فن کے ایک نئے دور میں داخل کیا۔ اس کا آغاز اٹلی کے شہر فلورنس سے ہوا، جہاں قدیم یونانی اور رومی علوم کی دوبارہ دریافت اور انسان دوستی (Humanism) کے نظریے نے انسان کی اہمیت، اس کی عقل اور صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔
نشاۃ ثانیہ کے نتیجے میں فنون لطیفہ نے ایک نئی سمت اختیار کی۔ لیونارڈو ڈا ونچی، مائیکل اینجلو اور رافیل جیسے عظیم فنکاروں نے حقیقت پسندی اور تفصیل پر مبنی شاہکار تخلیقات پیش کیں۔ اس تحریک نے سائنسی سوچ کو بھی فروغ دیا اور نیکولس کوپرنیکس جیسے مفکرین نے مشاہدے اور تجربات کی بنیاد پر روایتی نظریات کو چیلنج کیا۔
پندرہویں صدی دراصل قدیم اور جدید دنیا کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک طرف، مذہبی اور سیاسی طاقت کے ظلم، بدعنوانی اور توہم پرستی نے چرچ کی ساکھ کو تباہ کر دیا اور اصلاحات (Reformation) کا راستہ ہموار کیا، جبکہ دوسری طرف، نشاۃ ثانیہ نے نئے فکری دروازے کھولے اور یورپ کو ایک سائنسی، فنی اور انسانیت پر مبنی مستقبل کی طرف گامزن کیا۔ یوں یہ صدی زوال اور عروج، دونوں کی کہانی بیان کرتی ہے۔
ہم ایک ایسے مذہب کے ماننے والے ہین جن کے نبی کریمﷺ نے اپنی زندگی میں دین فطرت اور ارتقائی اصولوں کے پیش نظر دین میں اپنی حیات پاک ہی میں اجتہاد اور اجماع کی اجازت عطا فرما دی۔۔ لیکن ہم مسلمانوں نے اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا۔ جس کے نتیجہ میں آج مسلمان معاشرہ اسی دوراہے پر کھڑا ہے جس سے پندرہویں صدی مین عیسائیت گزر رہی تھی۔۔ کیا ابن خلدون کے مطابق اقوام و مزاہب کے عروج وزوال کی ایک جیسی داستان ہوتی ہے۔۔ یا یہ پندرہویں صدی ہجری نبی کریمﷺکے حرمت کے وسیلے ایک نئے اسلامی دور کا آغاز ہوگی۔۔ یہ رحمت العالمین کی آمد کے 15 سو سال مکمل ہونے کا ایک عہد ہوگا کہ ان کی دین کی خدمت ہر بندہ ان کی سالگرہ کے تحفہ کے طور پر کرے گا اور شاید یہی ایک
خوبصورت دنیا ایک خوبصورت آخرت کا باعث بن جائے گی۔۔
ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلی مرے آگے

