Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Salamat Ullah Khan
  4. Zaman O Makan Ki Qaid

Zaman O Makan Ki Qaid

زمان و مکاں کی قید

چونکہ انسان فطری طور پر متجسس واقع ہوا ہے اسلئے وہ کائنات کے عظیم سربستہ رازوں کو ٹٹولنے اور ان سے پردہ ہٹانے میں کافی دلچسپی لیتا ہے۔ سب سے زیادہ انسان جس چیز پہ قابو پانے کیلئے تڑپ رہا ہے وہ زمان و مکاں کی قید ہے۔ ویسے تو زمان و مکاں کے ہییت پر سائنس اور فلسفے نے خوب طبع آزمائی کی ہے لیکن فلسفے کی بحث میں پڑے بغیر کائنات میں کسی چیز کا وجود یا عدمِ وجود زمان و مکاں پر منحصر ہوتا ہے اور جو بھی چیز زمان و مکاں سے باہر ہو انسان اُسے دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔

انسان خود زمان و مکاں کے اندر نمو پاتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں ہر ایک راکھ سے ایک نئی چنگاری پھوٹی ہے۔ جس وقت بابُل کی بنیادیں گرتی ہیں تو وہی سے اشوریوں کا شعلہ بھڑک اُٹھتا ہے۔ اشوری جاتے جاتے دنیا والوں کیلئے یونان کا چراغ جلا دیتے ہیں۔ یونانیوں کا زوال رومیوں کو بلندیاں بخشتا ہے۔ رومی سلطنت بکھرنے لگتی ہے تو عربوں اور ترکوں کے سکے چلنے لگتے ہیں۔ عربوں اور ترکوں کی کمریں ٹوٹتی ہیں تو برطانیہ اور بعد میں مغرب بلندیوں کو چھو کر وہ عروج پاتے ہیں جو انسانی تاریخ میں شائد ہی کسی قوم نے پایا ہو۔

بہرحال انسان تباہ کن حد تک مقصد کا متلاشی اور رازوں کا دشمن ہے۔ وہ زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔ وہی انسان جو کچھ عرصہ پہلے غاروں سے نکلا ہے، اب سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونا چاہتا ہے اور کہکشاؤں سے پرے جانا چاہتا ہے۔ وہ ایسے طریقے دریافت کرنے میں سرگرداں ہے کہ جن کے ذریعے وہ زمان و مکاں سے آزاد ہو کر دنیا کے طول و عرض میں عظیم تہذیبوں کا عروج و زوال دیکھے۔ اس کے ہاتھ ٹائم مشین جیسی کوئی جادوئی چیز ہاتھ لگے تو وہ ایک لمحہ بھی نہ رُکے۔

انسان زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو سکتا تو کسی دن عراق میں بابُل کی تہذیبوں کو گرتا ہوا دیکھتا اور لوگوں کو اپنی خواہشات کا بوجھ اُٹھائے ہاروت و ماروت کی طرف بھاگتا ہوا دیکھتا۔ وہ یونان میں افلاطون اور سقراط کے فلسفوں میں دقیق ترین نکتوں کو سُلجھاتے ہوئے بعد میں دم توڑتے سکندر کو دنیا سے خالی ہاتھ جاتا دیکھتا۔ وہاں سے رومی سلطنت کی سیر کرتا اور سیزر جس کا قبضہ برطانیہ سے مراکش اور مصر سے آرمینیا تک چھایا ہوا تھا، خون میں پڑا زندگی کی آخری سانسیں لیتا ہوا دیکھتا۔

یہ انسان اگلے دن مصر کی طرف روانہ ہوتا اور قلوپطرہ کے خوبصورتی سے محظوظ ہوتے ہوئے قلوپطرہ کو کوبرا سانپ سے خود کو ڈسواتے بھی دیکھتا۔ پھر الموت جاتا اور وہاں حسن بن صباح کی بنائی گئی جنت میں بیٹھ کر اس کے ساتھ اسکے مقاصد پر گفتگو کر سکتا اور باری باری قرطبہ، غرناطہ، حلب اور نیشاپور کے ریگزاروں میں گھومتا ہوا اِن شہروں کو دیکھ سکتا جن کے صرف نام ہی تاریخ پر طلسم طاری کر دیتے ہیں۔ سلسلہ یہاں نہ رکتا اور پھر قسطنطنیہ جا کر صدیوں پرانے روم کا چراغ بھجتا ہوا دیکھتا۔

یہی انسان اگلے ہی لمحے برصغیر جاتا اور وہاں غزنویوں اور غوریوں کا عروج و زوال دیکھتا۔ وہ علاؤ الدین حسین غوری جنہیں دنیا "جہاں سوز" کے نام سے جانتی ہے، سے ملتا اور اسکے ہاتھوں بھائیوں کے قتل کا بدلہ لیتے ہوئے غزنی شہر کو جلتا ہوا دیکھتا۔ اس کے بعد یہ خاندانِ غلاماں کی بنیاد رکھنے والے قطب الدین ایبک کو پولو کھیلتے ہوئے مرتا دیکھتا۔ وہ ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون حکمران رضیہ سلطانہ کو ایک حبشی غلام یاقوت کی محبت میں گرفتار ہوتے دیکھتا اور بعد میں خلجی، تغلق، سید اور لودھی سلطنتوں کے درباروں کی خاک چھانتا ہوا مغلوں کے پاس جانے لگتا۔

وہ مغلیہ سلطنت کے دوسرے بادشاہ ہمایون کو نظامِ سقہ کو ایک صرف دن کیلئے بادشاہ بناتا دیکھتا اور بعد میں اسی ہمایون کو سیڑھیوں سے گرتے ہوئے مرتا بھی دیکھتا۔ یہ شیرشاہ سوری کی بہترین طرزِ حکومت کی تعریفیں کرتا ہوا اکبر بادشاہ کی دینِ الہی کے قصے سنتا ہوا جہانگیر کی محبت، انارکلی، کی اکبر کے ہاتھوں موت بھی دیکھتا۔ جہانگیر کی بیگم نورِ جہاں کی خوبصورتی دیکھتے ہوئے شاہ جہاں کو اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میں ایک عجوبہ "تاج محل" تعمیر کرتا ہوا دیکھتا۔ آخر میں رنگون کی جیل میں بے بس پڑے آخری مغل شہزادے بہادر شاہ ظفر کو دیکھ کر زندگی کی بے ثباتی پہ افسوس کرتے ہوا آگے بڑھتا۔

مختصر یہ کہ انسان چاہتا ہے کہ وہ زمان و مکاں سے نکل کر نئی دنیاؤں کو دیکھ سکے لیکن افسوس صد افسوس وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے۔ وہ کسی حد تک مکاں سے نکل کر بھی زمان کے سامنے جھک جاتا ہے اور فعل حال زمان کے حدوں کو پار کرنے سے عاجز ہے۔ وہ آج بھی یونان، اٹلی، عراق، مصر اور ہندوستان تو جا سکتا ہے مگر وہاں موجود صدیوں پرانے کھنڈرات کے ٹکڑوں میں یہاں راج کرنے والی تہذیبوں کو پھلتا پھولتا اور عظیم سلطنتوں کو بکھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ آہ! یہ انسان کی مجبوری بھی ہے اور بے بسی بھی کہ وہ زمان و مکاں کی قید سے آزاد نہیں ہو سکتا۔

About Salamat Ullah Khan

Salamat Ullah Khan is a graduate of Political Science & IR from Quaid e Azam University, Islamabad. He writes on Politics, History and Philosophy.

Check Also

Maaf Kijye Ga Sab Acha To Nahi

By Haider Javed Syed