Takhleeq Kar Aur Asabi Pecheedgian
تخلیق کار اور اعصابی پیچیدگیاں
آرٹ، تخلیق اور نیورولوجی بظاہر مختلف موضوعات ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آرٹ دماغ سے ہی جنم لیتا ہے اور مصوّروں، موسیقاروں، شاعروں، ادیبوں، فلسفیوں سمیت دیگر تخلیق کاروں کی تخلیقات انسانی دماغ کی بےپناہ صلاحیتوں کا سب سے بڑا اظہار ہیں۔
ایک صحت مند اور توانا دماغ میں تخلیقی صلاحیتوں کا ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تخلیقی علوم و فنون کی تاریخ میں بیشتر بڑی شخصیات نے نیورولوجیکل ڈس آرڈرز یا اعصابی امراض کے باوجود اپنے شعبوں میں عظیم شاہکار تخلیق کیے۔
انیسویں صدی کے دو دیوقامت ادبی اور فلسفیانہ شخصیات۔۔ موپساں اور نیٹشہ ایک ہی قسم کے متعدی اور موذی بیماری Syphilis (آتشک) کا شکار تھے، جو تادم مرگ ان کے ساتھ لگا رہا اور بالآخر دونوں کی مکمل اعصابی اور ذہنی تباہی کا سبب بنا۔ موپساں ایک رنگین صحبت کے نتیجے میں اس مرض کا شکار ہوا تھا۔ اس مرض کی وجہ سے موپساں کی داہنی آنکھ کی بینائی ختم ہو گئی تھی۔ جسم مفلوج ہونے کی حد تک بے جان ہو گیا تھا۔ ہر آن ساۓ کی طرح تعاقب میں لگی موت کے خوف اور دہشت سے چھٹکارا پانے کے لیے موپساں نے ایک عمر برّی اور بحری سفر میں گزاری۔ پیرس کے ادبی سرکلز میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ موپساں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے۔
اس مرض کی تکلیف اور درد کی شدت کے بارے میں لکھا کہ؛
The dreadful pain racks in a way no torture could equal, shatters the head, drives one crazy, bewilders the ideas, and scatters the memory like dust before the wind.
انیسویں صدی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ آتشک کا مرض ذہین لوگوں کی ذہانت کو مزید بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ اگرچہ تب اس کی کوئی سائنسی توجیح موجود نہیں تھی۔ مگر موپساں واقعتاً ذہانت اور تخلیق کی معراج کو پہنچا۔ اس دوران محض دس سال کے عرصے میں جان لیوا مرض کا شکار ہوتے ہوۓ بھی چھ ناولز، تین سو افسانے، تین ڈرامے، کئی سفرنامے لکھنے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کی۔ نیم نابینا، نیم مفلوج، موت سے لڑتے اس عظیم تخلیقی دماغ نے چار دنوں میں چودہ ہزار الفاظ پر مشتمل ایک ایسی کہانی بھی لکھی کہ ذہن سے الفاظ رواں تھے، قلم چلتا جاتا تھا اور جب کہانی ایک ہی بار روانی میں مکمل کی تو ایک لفظ کی تصحیح کی بھی گنجائش نہ تھی۔
یہ عظیم افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور صاحبِ طرز ادیب آہستہ آہستہ اپنے حواس مکمل کھو بیٹھا۔ ایک بار خود کو گولی ماری۔ زخم گہرا نہ ہونے کی وجہ سے بچ گیا۔ دوسری بار گلا کاٹنے کی کوشش کی تو پھر بچ گیا۔ بالآخر ایک پناہ گاہ میں بھیج دیا گیا۔ وہاں ذہنی توازن اس حد تک بگڑ گیا کہ خود کو Virgin Mary کا دولت مند بیٹا بتاتا تھا۔ اپنے پاخانے کو بھی ہیرے جواہرات سمجھتے ہوۓ سنبھال کر رکھتا تھا۔ اور کوٹھڑی کی دیواروں کو چاٹ کر ایک مخصوص جانور کی آوازیں نکالتا تھا۔ اسی پناہ گاہ میں مرا۔ اور مرنے سے پہلے اس کے آخری الفاظ تھے:
"تاریکی۔۔ تاریکی۔۔ تاریکی"
نیٹشہ کی جنسی زندگی ایک معمہ رہی ہے۔ قیاس آرائیاں رہی ہیں کہ نیٹشہ میں یہ مرض ایک قحبہ خانے میں کسی خاتون یا مرد کے ساتھ جنسی عمل کے ذریعے منتقل ہوا تھا۔ نیٹشہ نے یونیورسٹی آف بیسلز سے رخصت لی اور موپساں کی طرح موت کے خیالات کو رفع کرنے اور ذہنی سکون کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتا رہا۔ کئی کئی دنوں تک جاری رہنے والا سر درد، متلی nausea کی کیفیت، اُلٹیوں اور وقفے وقفے سے ادھ موا کر دینے والے شدید قسم کے جھٹکوں کی وجہ سے وہ چوبیس گھنٹوں میں بمشکل چند منٹ ہی اطمینان سے سوچنے اور لکھنے کے لیے نکال پاتا تھا۔ بینائی اس حد تک کمزور ہو گئی تھی کہ لکھنے کے لیے کاغذ آنکھوں کے دو انچ قریب رکھنا پڑتا تھا۔ Aphorisms کے بادشاہ نیٹشہ نے اپنی بیماری کے تکلیف کی شدت کو ان دردناک الفاظ میں اپنے ایک دوست کو لکھا
I am desperate. Pain is vanquishing my life and my will. My physical agonies were as many and various as the changes I have seen in the sky. In every cloud there is some form of electric charge which grips me suddenly and reduces me to complete misery. Five times I have called for Doctor Death, and yesterday I hoped it was the end in vain. Life has become a fearful burden.
لیکن اس کے باوجود اس مجذوب نے انسانی تاریخ کے تمام مقدس بتوں کو اپنے تباہ کن خیالات سے پاش پاش کر دیا۔ سگمنڈ فرائیڈ کے الفاظ میں کہ انسانی خود شناسی کی جو معراج نیٹشہ کو حاصل ہوئی، وہ انسانی تاریخ میں کسی کے نصیب میں نہیں آئی۔ اور اس میں اہم ترین کردار اسی مہلک مرض کا رہا ہے۔ اسی کی وجہ سے نیٹشہ نے انسانی ذہن کی تاریک تہوں میں غوطہ زنی کی اور اپنی تحقیق و تحریر کے ذریعے فلسفہ، منطق، سائنس، اخلاقیات کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا۔
اسی طرح دوستوئیفسکی، گستاو فلابئیر، ایڈگر ایلن پو اور برازیلی ناول نگار میکادو دی ایسس میں مِرگی کا مرض مشترک تھا۔ اول الذکر تینوں ادیبوں کے شہرہ آفاق تخلیقی کام سے تو ایک دنیا واقف ہے۔ لیکن برازیلین ادیب میکادو کا شاید کم ہی لوگوں نے مطالعہ کیا ہو۔ میکادو کا نایاب ناول The Epitaph Of A Small Winner سال قبل ہاتھ لگا۔ اگرچہ میکادو، فلابئیر اور دوستوئیفسکی کی طرح اپنی بیماری کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتا رہا مگر جدیدیت کے شاہکار اس منفرد اور دلچسپ ناول میں میکادو کی فکر پر اس اعصابی بیماری کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
ایمانوئل کانٹ نے اپنا اہم ترین فلسفیانہ کام اعصابی اور ذہنی تناؤ کے دنوں میں کیا۔ بائی پولر ڈس آرڈر کے شکار، سینتیس سال کی عمر میں خود کشی کرنے والے مشہور آرٹسٹ ونسنٹ وان گاگ کی تمام شاہکار پینٹنگز بشمول Starry Night کے اس مرض کے دورانیے میں تخلیق کی ہوئی ہیں۔ مذکورہ پینٹنگ تو وان گاگ نے پناہ گاہ میں مکمل نروس بریک ڈاؤن کے دوران محض حافظے سے بنائی تھی۔ اور یہ مصوّری میں ایک ایسا شاہکار فن پارہ بن گیا کہ اِسے انسانی دماغ میں موجزن نامعلوم قوتوں اور فطرت کے قوانین کے درمیان مفاہمت کے احساسات جگانے والی پینٹنگ کہا جاتا ہے۔
موسیقی کی تاریخ میں عظیم ترین کمپوزر موزارٹ اور جدید عہد کا سب سے زیادہ ٹیلنٹڈ اور تخلیقی شاعر چارلس بودلئیر کی تخلیقات پر بھی ان کے اعصابی امراض کا عمل دخل بتایا جاتا ہے۔ ارنسٹ ہیمنگوے، فرانز کافکا سمیت متعدد ادیب، مصوّر، موسیقار، فلسفی وغیرہ اپنے تخلیقی عہد میں ذہنی شکست و ریخت کا شکار رہے ہیں۔
مگر یہ ذہنی شکست و ریخت، مہلک امراض اور تکلیف دہ اعصابی پچیدگیاں ان تمام آرٹسٹس میں تخلیقی صلاحیتوں کی بڑھوتری کا باعث بنی ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہی ہے کہ اضطراب، بے چینی اور تخلیق میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ وہ مابعد الطبیعاتی صورتحال ہے جس سے متعلق سائنس بھی کوئی واضح راۓ دینے سے قاصر ہے۔ پس، جو لوگ بالخصوص فن، ادب اور ادبی تخلیقات میں منطق، استدلال اور ہر نقطے میں دلائل تلاش کرنے کو کسی فنی و ادبی شاہکار کے مقام کا تعین کرنے کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں، وہ اس پیچیدہ مابعدالطبیعاتی کیفیت سے ناواقف ہیں۔