Muhammad Shah Rangeela Ke Rangeeniyan
محمد شاہ رنگیلا کی رنگینیاں
کہتے ہیں کہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں جب موسیقی پر پابندی لگی تو گویوں اور موسیقاروں کی روٹی روزی بند ہوگئی۔ آخر تنگ آ کر ایک ہزار فنکاروں نے جمعے کے دن دہلی کی جامع مسجد سے ایک جلوس نکالا اور آلاتِ موسیقی کو جنازوں کی شکل میں لے کر روتے پیٹتے گزرنے لگے۔ اورنگزیب نے دیکھا تو حیرت زدہ ہو کر پوچھا، "یہ کس کا جنازہ لیے جا رہے ہو جس کی خاطر اس قدر آہ و بکا کیا جا رہا ہے؟"
انھوں نے کہا: "آپ نے موسیقی قتل کر دی ہے اسے دفنانے جا رہے ہیں"۔
اورنگزیب نے جواب دیا، "قبر ذرا گہری کھودنا!"
طبیعیات کا اصول ہے کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ یہی اصول تاریخ اور انسانی معاشرت پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ جس چیز کو جتنی سختی سے دبایا جائے، وہ اتنی ہی قوت سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔ چنانچہ اورنگزیب کے بعد بھی یہی کچھ ہوا اور محمد شاہ رنگیلا کے دور میں وہ تمام فنون پوری آب و تاب سے سامنے آ گئے جو اس سے پہلے دب گئے تھے۔
محمد شاہ رنگیلا اپنے پڑدادا اورنگزیب کے دورِ حکومت میں 1702 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پیدائشی نام روشن اختر تھا لیکن تخت پر بیٹھنے کے بعد ابوالفتح نصیر الدین روشن اختر محمد شاہ کا خطاب دیا گیا۔ خود ان کا تخلص "سدا رنگیلا" تھا۔ اتنا لمبا نام کون یاد رکھتا، چنانچہ عوام نے دونوں کو ملا کر محمد شاہ رنگیلا کر دیا اور وہ آج تک ہندوستان کے طول و عرض میں اسی نام سے جانے اور مانے جاتے ہیں۔
محمد شاہ کے شب و روز کا معمول یہ تھا: صبح کے وقت جھروکۂ درشن میں جا کر بٹیروں یا ہاتھیوں کے لڑائیوں سے دل بہلانا۔ اس دوران کبھی کوئی فریادی آ گیا تو اس کی بپتا بھی سن لینا۔ سہ پہر کے وقت بازی گروں، نٹوں، نقالوں اور بھانڈوں کے فن سے حظ اٹھانا، شامیں رقص و موسیقی سے اور راتیں۔۔ آخر وہ بھی تو رنگیلا تھا ناں۔
بادشاہ کو ایک اور شوق بھی تھا۔ وہ اکثر زنانہ لباس پہننا پسند کرتے تھے اور ریشمی پشواز زیبِ تن فرما کر دربار میں تشریف لاتے تھے، اس وقت ان کے پاؤں میں موتیوں جڑے جوتے ہوا کرتے تھے۔
شاہجہان کے بعد پہلی بار دہلی میں مغل مصوری کا دبستان دوبارہ جاری ہوا۔ اس طرز کی نمایاں خصوصیات میں ہلکے رنگوں کا استعمال اہم ہے۔ اسی دور کی ایک مشہور تصویر وہ ہے جس میں خود محمد شاہ رنگیلا کو ایک کنیز سے دادِ عیش دیتے دکھایا گیا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ دہلی میں افواہ پھیل گئی تھی کہ بادشاہ نامرد ہے، جسے زائل کرنے کے لیے اس تصویر کا سہارا لیا گیا جسے آج لوگ "پورن آرٹ" کے زمرے میں رکھیں گے۔
مغلوں کی درباری اور سرکاری زبان فارسی تھی، لیکن جیسے جیسے دربار کی گرفت عوامی زندگی پر ڈھیلی پڑتی گئی، عوام کی زبان یعنی اردو ابھر کر اوپر آنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اردو شاعروں کی پنیری تیار ہوگئی، جن میں شاکر ناجی، نجم الدین آبرو، شرف الدین مضمون اور شاہ حاتم وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ چنانچہ محمد شاہ رنگیلا کے دور کو اردو شاعری کا سنہرا دور کہا جا سکتا ہے۔
ویسے تو رنگیلے کی رنگینیاں نادر شاہ درانی کے حملے کے بعد سے ختم ہوگئی تھیں لیکن کثرتِ شراب نوشی اور افیم کی لت نے محمد شاہ کو اپنی سلطنت ہی کی طرح اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ اسی لیے ان کی عمر مختصر ہی ثابت ہوئی۔ ابھی سِن 46 ہی کو پہنچا تھا کہ ایک دن اچانک غشی کا دورہ پڑا۔ طبیبوں نے ہر نسخہ آزما لیا۔ انھیں اٹھا کر حیات بخش باغ منتقل کر دیا گیا، لیکن یہ باغ بھی بادشاہ کی حیات کی گھڑیاں کچھ زیادہ طویل نہیں کر سکا اور وہ ساری رات بےہوش رہنے کے بعد اگلے دن چل بسے۔