Koh e Noor, Aik Manhoos Aur Bewafa Heera?
کوہ نور، ایک منحوس اور بیوفا ہیرا؟
انسانی تاریخ کی ہر ایک تہذیب میں ہیرے جواہرات کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے اور ان کے حصول کے لئے بہت سے بادشاہوں اور ریاستوں نے لڑائیاں لڑی ہیں۔ ہیرے دولت اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ لافانیت اور طاقت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ یہ زمانہ قدیم سے بادشاہوں کے شاہی تاجوں کی زینت بنتے آ رہے ہیں۔ تاریخ میں ایک ایسا ہی ہیرا "کوہ نور" کے نام سے بھی مشہور ہے۔
ہندوستانی تاریخ پر لکھنے والے مشہور مورخ William Dalrymple لکھتے ہیں کہ کوہ نور کا شمار دنیا کے متنازع ترین ہیروں میں ہوتا ہے۔ اس ہیرے کو منحوس اور بیوفا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ یہ ہیرا کئی صدیوں تک معرکہ آرائیوں اور سازشوں کا موضوع بنا رہا۔ یہ مغل شہزادوں، ایرانی جنگجوؤں، افغان حکمرانوں اور پنجابی مہاراجوں کے قبضے میں رہا۔
آپ اس ہیرے کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع درانی اور اس کی بیوی وفا بیگم سے درخواست کی تھی کہ آپ چاہیں تو کشمیر لے لو لیکن یہ ہیرا مجھے دے دو۔ خیر وہ سیاسی چال سہی لیکن 105 قیراط وزنی اس ہیرے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اسے فروخت کرکے ساری دنیا کے لوگوں کو ڈھائی دن تک کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔
کوہ نور کی کہانی 1305 میں شروع ہوتی ہے جب علا الدین خلجی اسے مالوہ کے ہندو راجپوت راجہ سے چھین لیتا ہے۔ اس کے بعد یہ ابراہیم لودھی کے پاس پہنچتا ہے اور وہ 1526 میں پانی پت کے لڑائی میں شکست کھا کر مغل بادشاہ ہمایوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ ہمایوں اسے اپنے والد بابر کے سپرد کر دیتا ہے مگر وہ یہ پھر ہمایوں کے حوالے کر دیتا ہے۔
1540 میں شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد ہمایوں ایران چلا جاتا ہے اور کوہ نور ایرانی بادشاہ طہماسپ کو تحفتاً پیش کرتا ہے۔ طہماسپ دو سال بعد اسے دکن کے سلطان نظام برہان کو تحفتاً بھیج دیتا ہے۔
1739 میں نادر شاہ درانی کو ایک طوائف نور بائی سے پتہ چلتا ہے کہ کوہ نور محمد شاہ رنگیلا نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا ہے۔ نادر شاہ نے چال چلی اور محمد شاہ سے کہا، "ایران میں رسم ہے کہ بھائی خوشی کے موقعے پر آپس میں پگڑیاں بدل دیتے ہیں، آج سے ہم بھائی بھائی بن گئے ہیں، تو کیوں نہ اسی رسم کا اعادہ کیا جائے؟"
محمد شاہ کے پاس سر جھکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ نادر شاہ نے اپنی پگڑی اتار کر اس کے سر رکھی، اور اس کی پگڑی اپنے سر، اور یوں دنیا کا مشہور ترین ہیرا کوہ نور ہندوستان سے نکل کر ایران پہنچ گیا۔ جب انہوں نے پہلی بار یہ ہیرا دیکھا تو وہ دیکھتے رہ گئے اور اسے کوہ نور یعنی روشنی کا پہاڑ کہا اور یہ اسی نام سے مقبول ہوا۔
نادر شاہ نے اسے ایک اور ایرانی بادشاہ شاہ رخ مرزا کو دیا جس نے اسے افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کے سپرد کیا۔ احمد شاہ کے وفات کے بعد یہ ہیرا زمان شاہ سے ہوتے ہوئے محمود شاہ درانی کے بعد شاہ شجاع درانی کے پاس چلا جاتا ہے۔
شاہ شجاع درانی کوہ نور رنجیت سنگھ کے حوالے کرتا ہے۔ یوں یہ ہیرا واپس ہندوستان آجاتا ہے۔ مشہور ہے کہ رنجیت سنگھ نے کوہ نور لیتے وقت شاہ شجاع سے اس کی قیمت پوچھی۔ شاہ شجاع نے کہا کہ اس کی قیمت "طاقت" ہے۔ میرے آبا و اجداد نے اسے طاقت سے حاصل کیا تھا، اور اب جس کے پاس طاقت ہوگی وہ آپ سے چھین لے گا۔
پھر وہی ہوا۔ 1849 میں انگریزوں سے شکست کھانے کے بعد رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ سے کوہ نور گوروں کے حوالے کیا۔ 1850 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے برطانیہ کے بکنگھم پیلس بھیج کر ملکہ وکٹوریہ کے سامنے پیش کیا اور یوں کوہ نور ہندوستان اور ایران سے ہوتے ہوئے برطانیہ پہنچ گیا اور اب تک وہاں ہے۔
کوہ نور بڑا منحوس اور بیوفا رہا۔ یہ جس بادشاہ کے ہاتھ میں چلا جاتا تھا یا تو وہ مر جاتا تھا یا پھر کوئی اور چھین لیتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بھی دنیا کے چار ممالک یعنی پاکستان، انڈیا، افغانستان اور ایران اس کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن شاید شاہ شجاع نے رنجیت سنگھ کو ٹھیک کہا تھا کہ، "کوہ نور کی قیمت طاقت، ہے۔ جس کے پاس طاقت ہوگی یہ اس کے پاس رہے گا"۔