20Wi Se 21Wi Sadi Ka Safar
20 ویں سے 21 ویں صدی تک کا سفر
انسانی تاریخ کی ہر ایک تہذیب اور ہر ایک صدی نے انسانیت کو کچھ نہ کچھ نیا بخشا ہے جس سے یا تو انسانی زندگی تعمیر و ترقی کی راہ پہ گامزن ہوئی ہے یا پھر تخریب اور المیوں کا سامنا کیا ہے۔ جوں جوں بنی نوع انسان پہاڑوں، غاروں اور جنگلوں سے نکلتا گیا، وہ ترقی کے زینے پر چڑھتا گیا اور انسانی زندگی کروٹیں لینے لگی۔
بھلے آج ہم 21 ویں صدی کی اپنے لحاظ سے دو غیر معمولی دہائیاں دیکھ چکے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ 20ویں صدی ہمارے لئے غیر اہم ہے۔ 20 ویں صدی میں انسان نے سب سے اونچے پہاڑوں پر چڑھائی کی، زمین کی آخری حدوں پہ اپنے قدم رکھے، دو عظیم جنگیں لڑیں، عظیم سلطنتوں کا عروج و زوال دیکھا اور پھر خلا کا سفر کرکے چاند پر قدموں کے نشان چھوڑ آیا۔ یہ محرکات 20ویں صدی کی اہمیت پہ آنچ نہیں آنے دیتے۔
آس پاس ٹہلتی رنگین دنیا کو دیکھتے ہوئے ہم شاید اس وقت تاریخ کے سنہرے دور میں جی رہے ہیں۔ ہمارے پاس توانائی کے لامحدود اور سستے ذرائع بھی ہیں، انواع و اقسام کے مفید نباتات، حیوانات اور ادویات تک رسائی بھی حاصل ہے۔ ہم 24 گھنٹے کے اندر کرہ ارض کے کسی بھی حصے کا دورہ بھی کر سکتے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی، کمپیوٹنگ اور کمیونیکیشن کے کرشموں نے دنیا بھر میں مختلف قسم کے مسائل سے نپٹنے اور حل کرنے میں انسان کا ہاتھ بٹایا ہے اور بٹا رہا ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں اس وقت انسانی تاریخ کے عروج پر ہونا چاہئے کیونکہ ہم نے ان محیر العقول کارناموں تک رسائی یقینی بنائی ہے جسے دیکھ کر انسان انگشتِ بدنداں رہ جاتا ہے۔ ان غیر معمولی کامیابیوں کی مثال ہمیں انسانی تاریخ میں کہیں بھی نہیں ملتی۔
آئیے اب سکے کا دوسرا رُخ پلٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تمام تر سائنس و ٹیکنالوجی، بیش بہا ترقی اور بہترین دماغ کے باوجود بھی دنیا کی اکثریتی آبادی غربت کی چکی میں پِس رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق آج بھی روزانہ 25,000 زندگیاں روٹی کیلئے ترستی ہوئی معدوم ہوتی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کرہ ارض پر سانس لیتی زندگی کو نگل رہی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور زرائع مواصلات میں تمام تر ترقیوں کے باوجود، انسانی سمگلنگ کی شکل میں جدید دور کی غلامی جدید دنیا کے چہرے پہ ایک بدنما داغ ہے۔ اداروں کی رپورٹس کے مطابق بچوں اور خواتین سمیت لاکھوں افراد جبری مشقت کا شکار ہیں جن میں زیادہ تر بچے تجارتی فائدے کیلئے اسمگل کئے جاتے ہیں۔
اگر ایک طرف کمیونزم اور کمیونسٹ حکومتوں کے ہاتھ لاکھوں انسان کے خون سے رنگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف آج سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں انسان اور ریاستوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ بہت سے ملکوں میں دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے اور کارپوریٹ اور بورژوا طبقہ دنیا کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی تشکیل میں پیش پیش ہیں جس سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کمیونزم اور کیپٹلزم نے تاریخ کی بدترین المیوں کو جنم دیا ہے۔
دوسری طرف ہنٹنگٹن کے Clash of Civilization یعنی "تہذیبوں کے ٹکراؤ" کے مقالہ کے تناظر میں اسلامی شدت پسندی اور جدید مغربی اقدار کی باہمی چپکلش دونوں کے بنیادی تہذیبی ڈھانچوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس نیوکلیئر دور میں روس یوکرین اور اسرائیل فلسطین جنگوں کی وجہ سے نسلیں تباہ ہو رہی ہے۔ مزید یہ کہ تیل کے خزانے سے مالامال ممالک مثلاً سعودی عرب، ایران، عراق اور کویت سے کسی بھی قسم کی کشیدگی کی صورت میں مغرب اور اس کے تجارتی شراکت داروں کو خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے جس سے مزید عدم استحکام اور تنازعات انسان کے منتظر ہوں گے۔
اس کے علاوہ آج عالمی بقا، سالمیت اور خوشحالی کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ، "ماحولیاتی تبدیلی" کی صورت میں خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات اور نقصانات سے باخبر ہونے کے باوجود، انسان اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار رہا ہے۔ وہ صاف آب و ہوا کو آلودہ کر رہا ہے، دانستہ اور نادانستہ طور پر قدرتی وسائل کا بےدریغ اور غیر دانشمندانہ استعمال کر رہا ہے۔ وہ زیادہ دولت اور منافع کمانے کی نہ ختم ہونے والی حسرت کی آگ میں جنگلات کو تباہ کر رہا ہے۔ کسی وقت پینے کیلئے صاف پانی اور سانس لینے کیلئے صاف ہوا مہیا کرنا انسان کیلئے معجزہ ہوگا۔ قدرتی وسائل کا بے دریغ اور غیر دانشمندانہ استعمال کرہ ارض پر سانس لیتی انسانی زندگی کیلئے خطرے کا باعث ہیں۔
بھلے ہم ایک نایاب نوع کے طور پر قدرت کے ساتھ بہت زیادہ دیر تک موافقت پذیر ہوسکتے ہیں لیکن دنیا کی آبادی اب آٹھ ارب سے زیادہ ہو کر مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آبادی وسائل پر سبقت حاصل کر رہی ہے جس کی بدولت انسان عنقریب ایک نازک موڑ پہ کھڑا ملے گا۔
مختصر یہ کہ جب تک ہم اپنے وسائل بارے طویل المدتی اور دانشمندانہ فیصلے نہیں کریں گے، اِن کو بچانے اور محفوظ کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم ان سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے اور ہماری نسلیں ان پر لڑتے ہوئے ختم ہو جائیں گی۔ پھر ماضی کی طرح مستقبل میں بھی عدم برداشت، جنگ، فاقہ کشی اور نسل کشی جیسے ناسور انسانی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے۔