Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Nabina o Deegar Mazoor Afrad Aur Hamara Muashra

Nabina o Deegar Mazoor Afrad Aur Hamara Muashra

نابینا و دیگر معذور افراد اور ہمارا معاشرہ

ہمارے والد محترم کے استاد حافظ قاری شوکت علی نابینا تھے۔ میں بہت چھوٹا تھا جب ان کا انتقال ہوگیا لیکن وہ بہرحال میری یادداشتوں میں موجود ہیں۔

ہمارے ابا جی مرحوم بتایا کرتے تھے کہ قاری صاحب کو اللہ نے بینائی نہیں دی تھی لیکن باقی صلاحیتیں بے مثال تھیں، وہ اکیلے دور دور کے علاقوں تک جا پہنچتے تھے، یادداشت کمال تھی راستے ایسے ماپے ہوتے کہ ہم اگر کنفیوز ہوتے کہ یہ گلی یا اگلی تو وہ بتاتے جہاں ہم پہنچے ہیں یہیں سے دائیں مڑنا ہے۔ بااخلاق اور خوش طبع تھے۔ مسجد میں بیٹھے ہوتے تو ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہی جان جاتے، جونہی ہم وضو کر کے صف پر چلنا شروع کرتے تو وہ چند قدموں کی تھاپ سے ہی پہچان کر کڑکدار آواز دیتے۔ کون، محمد طفیل ہے؟ میں کہتا جی قاری صاحب۔

آج مجھے ابو جی کی وساطت سے قاری شوکت اس لئے یاد آئے جب کہیں نابینا افراد کے عالمی دن پر گفتگو ہو رہی تھی، یہیں مجھے اٹلی کا وہ دن یاد آیا جب میں وہاں کچھ علیل ہوا اور اپنے میزبان کے ہمراہ میڈیکل اسٹور سے کچھ عام ادویات خریدنے گیا۔ وہاں دیکھا ہر دوا پیکٹ میں تھی اور اس پر (برل) بصارت سے محروم افراد کی زبان میں بھی نام اور ضروری ہدایات درج تھیں۔ میں حیران ہوا کہ نابینا افراد کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے لیکن اس قدر اہتمام کہ تمام ادویات پر اضافی خرچہ کر کے اسے نابینا افراد کے لئے پڑھنے کے قابل بنا دیا ہے۔

یہ قوموں کے احساس ذمہ داری کا اظہار ہے۔ ہمارے ہاں ابھی اس کا تصور ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے ہم ایک غیر ذمہ دار قوم ہیں اور اپنے رویوں سے بھی ثابت کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مختلف وجوہات کی بنا پر ٹانگوں سے معذور افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو مستقل معذور ہیں یا کسی حادثہ وغیرہ کے باعث عارضی طور پر معذور ہیں۔ ہم انکی ضروریات کا خیال رکھنے کا رویہ اور سوچ نہیں رکھتے ملک میں قوانین موجود ہیں لیکن عمل درآمد کے منتظر ہیں۔

گزشتہ حکومت نے ان قوانین پر عمل درآمد کیلیے کچھ پیش رفت کی تو ہمارا اجتماعی معاشرتی رویہ اور شعور بے پردہ ہوگیا۔ اسٹیٹ بینک کے ذریعے تمام بینکوں کو حکم دیا گیا کہ تمام بینک اپنی اے ٹی ایم مشینوں اور بینک کے داخلے کو (ویل چئیر فرینڈلی) ویل چئیر پر جانے کے قابل بنائیں، اس کے بعد جو ہوا اس کو آپ (جھلکیوں میں ان تصاویر میں) اپنے ارد گرد کسی بھی بینک پر جا کر دیکھ سکتے ہیں۔

لیکن المیہ تو یہ ہے کہ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کی آبادی 95 فیصد سے زائد مسلمان ہے جن کو دن میں پانچ بار اجتماعی عبادت کیلئے مسجد میں جانا ہوتا ہے، لیکن کسی شہر، کسی صوبے حتیٰ کہ پورے ملک میں آپکو کوئی ایک مسجد ایسی نہیں ملے گی جہاں کوئی معذور فرد ویل چئیر پر خود جا سکے۔

انسانیت ہماری زندگیوں میں آئے گی تو ہی ہم انسان کہلا سکتے ہیں۔

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad