Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Marhoom Walid e Mohtaram Ka Tohfa

Marhoom Walid e Mohtaram Ka Tohfa

مرحوم والد محترم کا تحفہ

یہی حقیقت ہے کہ میری خود اعتمادی اور اللہ پر یقین میرے والد مرحوم کی عنایت ہے۔ عرصہ پہلے جب اپنی لیدر ٹیکنالوجی کی تعلیم مکمل کی تو پہلی نوکری کیلئے دوستوں کیساتھ کراچی جانے کا پروگرام بنایا، تین دوستوں نے اپنے گھروں سے اجازت حاصل کی بظاہر میرے لئے ہی اجازت مشکل تھی کیونکہ باقی دونوں گھر سے باہر ہاسٹل وغیرہ میں رہ چکے تھے، لیکن والد محترم نے فرمایا اچھی طرح سوچ کر فیصلہ کر لو میں تمہارے ساتھ ہوں، یوں اجازت مل گئی۔

پھر ہمارے اس دوست کی اجازت منسوخ ہوگئی جس نے تینوں کیلئے ٹرین کی ٹکٹ بک کروائی تھیں وجہ یہ تھی کہ وہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا تین بہنوں کی شادی ابھی ہونا تھی اس فرمانبردار بیٹے نے والدین کے فیصلہ پر سر تسلیم خم کیا اپنا کئیر ختم کر لیا ماں باپ بہنوں کی خدمت کی انکی شادی اور خوشی کیلئے سب پاپڑ بیلے لیکن آج اس کا انہی بہنوں نے کیا حشر کر رکھا ہے یہ کہانی پھر سہی۔

خیر ہم نے تیسرا مسافر بدلا اور کراچی پہنچ گئے، یہاں جس ہمت استقامت اور محنت کی ضرورت تھی اسکے لئے میرے والد محترم نے مجھے بچپن اور کم عمری میں ہی اپنے ہر فیصلہ میں شامل کرکے مجھے ہر جگہ اپنے سائیکل پر ساتھ ساتھ لے جا کر میری تربیت کی تھی۔

کراچی کی کہانی بھی پھر کسی وقت کیلئے موخر رکھیں، آج صرف میری تربیت کا ایک واقعہ حاضر ہے۔

والد صاحب ایک معمولی سرکاری نوکری کرتے تھے اور ساتھ کبھی کوئی جزو وقتی کام کرتے جب جب کچھ رقم جمع ہوئی تو فورا کوئی نہ کوئی کاروبار چھوٹے پیمانہ پر کر لیا۔ ان دنوں فروٹ منڈی میں ایک پارٹنر کیساتھ مل کر سیب کے کاروبار میں کچھ سرمایہ کاری کی اللہ نے برکت دی اور ایک سیزن میں ہی سرمایہ اچھا خاصا ہوگیا، پھر کچھ مال پارٹنر کی غلطی اور لالچ کی وجہ سے اسٹور میں ہی خراب ہوگیا اور وہ مال جو چند دن پہلے دونوں کو بیس بیس ہزار کا نفع دے رہا تھا آج تیس تیس ہزار کا نقصان کر گیا۔ اسے ساتھ لے کر منڈی سے والد محترم شہر سیالکوٹی دروازہ آئے اور معراج دین مچھلی والے سے والد صاحب نے مچھلی کا آرڈر کیا تو انتظار کرتے ہوئے نقصان کی وجہ بننے والی غلطیوں پر بات ہوئی اور آئیندہ کیلئے کاروبار کے امکانات کا جائزہ لیا، مچھلی آ گئی والد محترم نے حسب عادت اپنا پسندیدہ ٹکرا مہمان کو پیش کیا۔

ہم کھانا کھانے لگے تو وہ بولا یار تم کیا چیز ہو!

میرے حلق میں نقصان کے کانٹے پھنسے ہوئے ہیں اور پانی بھی حلق سے نہیں اتر رہا تم مزے سے مچھلی کھا رہے ہو۔

والد محترم بولے جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا اس پر پچھتانے کی بجائے ان غلطیوں کو یاد رکھنا ہے اور زندگی ابھی باقی ہے تو پھر سے کوشش اور محنت کریں گے اللہ پہلے کی طرح پھر سے نفع دے گا پھر سے سرمایہ بڑھائے گا، فکر کس چیز کی! دھیان سے کھانا کھاو۔

دوستو! ہم نے سبق سیکھا کہ جو مال چلا گیا اس پر افسوس اور پچھتاوا بے معنی ہے جو مال پاس ہے اس کا استعمال توجہ ایمانداری اور محنت سے کرنا ہے باقی نتیجہ رب کی مرضی ہے اور ہمیں اس پر راضی رہنا ہے۔

ہمیں اعتماد رکھنا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے لئے بہتری کے فیصلے ہی کرتا ہے۔

Check Also

Molvi Abdul Salam Niazi

By Zubair Hafeez