Barhte Fasle
بڑھتے فاصلے
اکبر بہت پریشان تھا، نمناک آنکھوں گے ساتھ وہ سر جھکائے بیٹھا تھا، بھلے ہمیں مسئلہ کے بارے میں کچھ آگاہی اکبرکے آنے سے پہلے دے دی گئی تھی، لیکن ہمیں اسکی زبانی ہی ساری کہانی سننا تھی۔
میں کتنی ہی دیر میں اسے تسلی دیتا رہا، وہ بمشکل خود کو سنبھال کر بولا، میں اپنے خاندان میں بڑا سمجھا جاتا ہوں سارے بہن بھائی میری بہت عزت کرتے ہیں کوئی مسئلہ درپیش ہو کوئی فیصلہ کرنا ہو سب مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔
میری بڑی بہن کا بیٹا پڑھ کر بینک میں اچھی نوکری لگ گیا ہے اس کے لئے بہن نے میری بیٹی کا رشتہ مانگا ہے، یہ بات میں نے گھر میں کی تو بیٹی نے انکار کر دیا کہ میں اس سے شادی نہیں کروں گی۔ چھوٹی بیٹی نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دیا اور اعلان کر دیا کہ ہم خاندان میں شادی نہیں کریں گی۔
دونوں بیٹیاں یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں تو اول ہم نے یہی سمجھا یہ میڈیکل وجوہات کی بنیاد پر کزن میرج کی مخالفت کر رہی ہیں، لیکن پھر بات کھلی کہ دونوں ہی کہیں محبت کرتی ہیں لڑکے ہماری برادری سے بھی نہیں ہیں۔
انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہم شادی صرف ان لڑکوں سے کریں گی اس کے لئے خواہ ہمیں گھر ہی چھوڑنا پڑے۔
اکبر نے یہ صورتحال بتائی اور پھر آنکھوں سے مسلسل جاری آنسو صاف کرنے لگا۔
ہم نے اسے سمجھایا کہ پہلی بات آپ سمجھ لیں جوان اولاد کے ساتھ آپ زور زبردستی نہیں کر سکتے خواہ آپ انکے بھلے کی بات ہی کر رہے ہوں یہ نہیں سمجھیں گے، ان سے حکمت کیساتھ معاملہ کرنا پڑے گا۔
اسے بڑی بحث و مباحثہ کے بعد ہم یہ سمجھا پائے کہ قانونی اور مذہبی دونوں پہلو سے بالغ لڑکیاں اپنا فیصلہ کرنے کی مجاز ہیں، آپ سب سے پہلے ان لڑکوں کا نام پتہ لے کر تفصیلات حاصل کریں۔ اگر لڑکے اور انکے خاندان میں کوئی خرابی معلوم ہو تو لڑکیوں کو آگاہ کریں تاکہ وہ فیصلہ پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر ان لڑکوں کے متعلق سب معاملات تسلی بخش اور ٹھیک ہوں تو پھر مناسب شرائط کے ساتھ بات آگے بڑھا لیں گے۔
اکبرنے ایسا ہی کیا، لڑکیوں کو آگاہ کیا کہ اسے کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ انکی شادی پورے عزت و وقار کے ساتھ کرنا چاہتا ہے اس لئے پہلے مکمل تسلی کرے گا، وہ اپنی جان سے پیاری بیٹیوں کی خوشی چاہتا ہے انہیں کبھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔
لڑکیوں نے یہ خوشخبری آگے بھی پہنچا دی، چند دن اندر ہی اندر کھچڑی پکتی رہی اور دس بارہ دن میں ہی لڑکیاں باپ کے سامنے سر جھکائے بیٹھی تھیں۔
دونوں کے ساتھ محبت کا دعوی کرنے والے لڑکے "گھر والے نہیں مان رہے" کہہ کر انہیں بھاگ کر شادی کرنے پر قائل کر رہے تھے۔ لڑکیوں کے اصرار پر بھی انہیں اپنے گھر والوں سے رابطہ نہیں کروا رہے تھے۔
ادھر چونکہ باپ کی پوری تائید لڑکیوں کو حاصل تھی تو انہوں نے یہی مطالبہ رکھا کہ ہمیں باعزت طریقے سے آپ کے ساتھ گھر والے بیاہ کر لے جائیں اس کے علاوہ کوئی صورت قبول نہیں۔
کہانی یہی کھلی کہ لڑکوں کا ارادہ چند دن کی عیاشی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ لڑکیوں سے ہماری نشست ہوئی تو ہم نے یہی یقین دہانی کرائی کہ اس کے بعد بھی مرضی آپ کی ہی ہوگی، البتہ آپ کے والدین جو رشتہ بہتر سمجھیں گے وہ آپ کے لئے تجویز کریں گے۔
دونوں لڑکیوں کا کہنا تھا کہ اگر چند دن والدین کے ساتھ اس طرح ہماری بات نہ ہوتی تو ہم بہت بڑا قدم اٹھا چکی ہوتیں، گھر میں ہمیں کبھی پوچھا نہیں جاتا تھا نہ کبھی ہماری بات سنی گئی تھی ہم تو یہ فیصلہ کرکے بیٹھی ہوئیں تھیں کہ اس معاملہ میں کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بس کر گزرنا ہے۔
والدین نے بھی تسلیم کیا کہ انہوں نے رعب اور دبدبہ رکھنے کے چکر میں اولاد سے فاصلہ بڑھا لیا تھا انہیں خبر ہی نہیں تھی کہ بچوں کی رہنمائی کیلئے پہلے ان کو سننا ہوتا ہے۔
خواتین وحضرات!
بس آج سے ہی گھر واپس آئیں تو بچوں کو گلے ملیں۔ سیر کو نکلیں تو بچوں کا ہاتھ پکڑ کر چلیں باتیں کریں، رات کو اکٹھے بیٹھیں اپنے قصے شرارتیں انہیں سنائیں ان سے یہی کچھ سن کر ہنسیں قہقہے لگائیں۔ بچوں کے قریب ہو کر دیکھیں مسائل حل ہونے لگیں گے۔ زندگی کے رنگ بھلے محسوس ہونے لگیں گے۔