Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Talkh Haqeeqat

Talkh Haqeeqat

تلخ حقیقت

1880 میں سکاٹ لینڈ میں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا، اور اس واقعے سے سوشل سائنس کی ایک نئی تھیوری نے جنم لیا۔ سکاٹ لینڈ کا ایک انتہائی غریب کاشتکار جب رات کے وقت اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا تو اچانک اسے جنگل میں کسی بچے کے رونے کی آواز آئی۔ کاشتکار رکا، اور اس بچے کو تلاش کرنے کیلئے جنگل میں اتر گیا۔ جنگل میں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ ایک پانچ یا چھ سال کا بچہ دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔

بچہ گردن تک مٹی میں دفن ہو چکا تھا۔ کاشتکار نے رسہ پھینک کر بچے کو اس دلدل سے باہر نکالا، اسے نہلایا اور اس بچے سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ معلوم ہوا کہ بچہ اپنے والدین کے ساتھ پکنک منانے آیا تھا اور اس کے والدین قریب ہی ایک ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ کاشتکار نے بچے کو ریسٹ ہاؤس پہنچایا، اور اپنے گھر واپس آ گیا۔

اگلے دن کاشتکارکے گھر کے سامنے ایک بڑی سے گاڑی رکی اور اس میں سے ایک رئیس شخص نیچے اترا۔ اس نے کاشتکار کو باہر بلوایا اور اس کو بتایا کہ اس کا شمار برطانیہ کے بڑے نوابوں میں ہوتا ہے۔ اور گزشتہ رات کاشتکار نے جس بچے کی جان بچائی تھی، وہ نواب کا بیٹا تھا۔

نواب نے کاشتکار کا شکریہ ادا کیا اور اسے کچھ معاوضہ دینے کی کوشش کی لیکن کاشتکار نے معذرت کرلی۔ ان دونوں کی گفتگو کے دوران کاشتکار کا بیٹا بھی گھر سے باہر نکلا اور اپنے والد کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ نواب نے بچے کی طرف دیکھا اور کاشتکار سے پوچھا۔

"کیا تمھارا بیٹا سکول جاتا ہے؟"

کاشتکار نے انکار میں سر ہلا دیا اور جواب دیا، نہیں۔ یہ کسان کا بیٹا ہے، اس نے کسان ہی بننا ہے۔ لہٰذا، اسے پڑھنے اور لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟

نواب نے کاشتکار کو آفر کی کہ اگر وہ اجازت دے تو وہ اس کے بیٹے کی تعلیم کا بندوست کر سکتا ہے۔ کاشتکار نے یہ آفر بھی ٹھکرا دی۔ اس پر نواب نے کاشتکار سے کہا۔ چلو، ہم یہ بات بچے پر چھوڑتے ہیں۔ اگر بچے نے ہاں کر دی تو میں اسے سکول میں داخل کروا دوں گا اور اگر انکار کر دیا تو میں اپنی آفر واپس لے لوں گا۔ کاشتکار مان گیا۔

نواب نے بچے کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا۔

بیٹا! کیا تم سکول جانا چاہتے ہو؟ بچے نے ہاں میں گردن ہلا دی۔ قصہ مختصر، نواب اس بچے کو اپنے ساتھ لے گیا اور اسے اپنے اس بچے کے ساتھ سکول میں داخل کروا دیا جس کی جان کاشتکار نے بچائی تھی۔

یہ دونوں بچے بعد ازاں دنیا کے نامور لوگ بنے تھے۔ اس نواب کے بیٹے کا نام سر ونسٹن چرچل تھا، جس کی جان کاشتکار نے بچائی تھی۔ چرچل دو بار برطانیہ کا وزیراعظم بنا۔ اس نے کمال مہارت سے اتحادی فوجیوں کو دوسری جنگ عظیم میں فتح دلوائی۔ اس نے نوبل انعام بھی حاصل کیا۔ دنیا کا دوسرا ایٹم بم بنایا۔ اس نے آئرن کرٹن کی اصطلاح ایجاد کی اور وکٹری V کا نشان بھی چرچل ہی کی دین ہے۔

جبکہ کاشتکار کے بیٹے کا نام الیگزینڈر فلیمنگ تھا۔ فلیمنگ نے پنسلین ایجاد کی تھی۔ ہم آج جو اینٹی بائیوٹک دوائیں کھاتے ہیں ان کا موجد سر الیگزینڈر فلیمنگ تھا۔ فلیمنگ نے سر کا خطاب حاصل کیا۔ اور اسے بھی نوبل پرائز ملا تھا۔ اس واقعے کی بنیاد پر سوشل سائنس کی ایک تھیوری ایجاد ہوئی تھی۔ اس تھیوری کا نام چین ری ایکشن ہے۔ اور اس تھیوری کا مطلب ہے کہ ہمارے ہر کام سے، ہر چھوٹے یا بڑے کام سے کوئی نہ کوئی الیگزینڈر فلیمنگ پیدا ہوسکتا ہے، اور ہمارا ہر برا کام کسی نہ کسی ہٹلر، کسی نہ کسی چنگیز خان، اور کسی نہ کسی ایڈز جیسی بیماری کی بنیاد بن سکتا ہے۔

پاکستان اس وقت غربت، بےروزگاری، مہنگائی اور دہشت گردی کی زد میں ہے۔ ہر بم دھماکے میں بےگناہ اور معصوم لوگ جاں بحق اور زخمی ہو جاتے ہیں۔ باجوڑ میں ہونے والے بم دھماکے نے ہر آنکھ اشکبار کر دی ہے۔ بم بنانے، لگانے اور پھاڑنے والے لوگ یہ کاروائی کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے ان کے بم کی زد میں ایسے بچے بھی آ جائیں جنہیں قدرت نے فلیمنگ بنا کر دنیا میں بھیجا تھا، اور ان بچوں نے آگے چل کر انسانیت کی خدمت کرنا تھی۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ان تخریب کاروں کی کاروائیوں کی زد میں مستقبل کے ڈاکٹر عبد القدیر خان، مستقبل کے عبدالستار ایدھی بھی آسکتے ہیں اور پاکستان کا کوئی نہ کوئی مستقبل کا بل گیٹس بھی ان کی کاروائیوں کا شکار بن سکتا ہے۔

مہنگائی، بےروزگاری، غربت و افلاس ایک غریب بچے کا مستقبل چھین لیتی ہے وہ سایہ دار درخت بننے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ بم صرف بارود سے ہی نہیں بنتے بلکہ ان بموں کی بھی کئی اقسام ہیں، یہ بم صرف باہر ہی نہیں پھٹتے اور یہ صرف گردوپیش اور ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ یہ قوموں، ملکوں، اور معاشروں کو اندر سے ہی تباہ کر دیتے ہیں۔ معاشروں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ اور ہم بدقسمتی سے ایک ایسی ہی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan