Hai Zinda Faqat Wahdat e Afkar Se Millat
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
موجودہ دور کی سب سے اہم ضرورت قومی و ملی اتحاد ہے۔ جسے اسلام دشمن عناصر نے پارہ پارہ کرنے کے لیے اپنی پوری توجہ اور طاقت صرف کردی ہے۔ علاقائی اور لسانی اختلافات، مذہبی و گروہی اور فروعی اختلافات، طبقاتی کشمکش اور اونچ نیچ جیسے امراض کا مستقل علاج از حد ناگزیر ہے۔ یہ کام انفرادی طور پر کسی ایک فرد اور گروہ کا نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں خالص اتحاد پیدا کرنا ہو گا اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی اقدار کو فروغ دے کر نئی نسل کو مستقبل کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا بھی ضروری ہے۔
رنگ، نسل، زبان اور وطن اتحاد کے ذرائع ضرور ہیں مگر ان میں کوئی بھی ذریعہ ٹھوس اتحاد و یکجہتی کی ضمانت نہیں ہے۔ ایک ہی رنگ کے لوگ ہمیشہ مختلف ملکوں، قوموں اور گروہوں میں منقسم رہے ہیں۔ ان میں باہمی مناقشت بھی موجود رہی ہے۔ اسی طرح ایک نسل سے متعلق لوگ بھی کبھی متحد نہیں رہے۔ قرآن کی رو سے پوری نوع انسانی ایک نسل ہے لیکن یہ نسل مختلف طبقوں، فرقوں اور گروہوں میں بٹی رہی ہے۔ آریائی، سامی غرض کسی بھی نسل کے لوگ محض نسلی بنیاد پر کبھی متحد نہیں رہے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ اشتراک زبان کے باوصف باہم متحد نہیں ہیں۔ مشترکہ زبان کے باوجود عرب دنیا کئی ملکوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک ہی وطن میں رہنے والے لوگ بھی باہم برسرپیکار رہے ہیں۔ دیرپا اور پائیدار اتحاد وہ ہے جس کی بنیاد ایک عقیدے پر ہے۔ لیکن یہ امر بھی واضح ہے کہ ہم عقیدہ افراد میں بھی لڑائیاں ہوئی ہیں۔ خود مسلمانوں کی باہمی لڑائیاں اس کا ثبوت ہیں۔ تاہم عقیدہ اتحاد کی جو بنیاد فراہم کرتا ہے وہ رنگ، نسل اور زبان و وطن کے امتیازات سے بالاتر ہے مختلف تہذیبوں اور قوموں نے نسل، زبان اور تہذیب کی بنیاد پر وسیع تر اتحاد کی مساعی عمل میں لائیں لیکن بے سود۔
اسلام اس لیے اتحاد کی محکم بنیاد ہے کہ وہ مسلمانوں کو "بھائی بھائی" قرار دینے کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے بارے میں بھی غیر جانبدارانہ، مصالحانہ اور انسانی رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم بغیر کسی دباؤ کے پوری مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ جبکہ کمیونسٹ نظام میں غیر کمیونسٹ اپنے طریقے سے زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ اسودوابیض، عربی و عجمی اور محمود و ایاز کے ایک صف میں کھڑے ہونے کی مثال صرف اسلام کی تاریخ میں ملتی ہے۔
گزشتہ صدی میں مسلمانوں کا باہمی انتشار اور عدم اتحاد اپنی انتہا کو چھو رہا تھا۔ اس صورت حال کی ایک اہم وجہ مسلمانوں کا یہ احساس تھا کہ دوسری اقوام سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، صنعت اور معیشت میں بہت آگے بڑھ چکی ہیں اور ترقی کا راستہ وہی ہے جو ان ترقی یافتہ اقوام نے اپنایا۔ اس احساس کو مرعوبیت یا احساس کمتری کے سوا کسی نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اہل مغرب نے اہل مشرق بالخصوص مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ان کی پسماندگی و زبوں حالی کا باعث ان کا مذہب ہے اور جب تک وہ مذہب کی گرفت سے آزاد نہیں ہوتے ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتے۔ اشتراکی نظام کی حد درجہ ترقی نے اس تاثر کو مزید تقویت پہنچائی کیونکہ اشتراکی نظام لادینی نظام ہے۔ اوپر سے مغربی اقوام نے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کی کہ ان کی پسماندگی کا اصل سبب اسلام سے وابستگی ہے۔
اس طوفان بدتمیزی سے متاثر ہو کر امت مسلمہ ہی کا ایک گروہ غیر اسلامی ازموں کا دم بھرنے لگا۔ تاحال بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے ہیں اور اس سے بیزاری و لاتعلقی کو باعث افتخار سمجھتے ہیں۔
اب اس صورت حال میں کسی قدر تبدیلی تو آ چکی ہے لیکن اب تک اختلاف رائے موجود ہے۔ مسلم مفکرین کے نزدیک مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب اسلام نہیں بلکہ خود مسلمانوں کی بے عملی اور سست روی ہے۔ اسلام نے حرکت، جدوجہد اور تلاش و جستجو پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن حکیم کا فیصلہ ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔ مسلمان سعی عمل کے اوصاف سے محروم ہو کر باہمی عدم تعاون اور انتشار کے باعث زبوں حالی اور پسماندگی کا شکار ہوگئے۔ اب ایک عرصے سے یہ سوال زیر بحث ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد کیونکر قائم ہو؟ ٹھوس اتحاد کی بڑی رکاوٹ وطنیت ہے۔
1952ء میں پاکستان نے اسلامی ممالک کے وزرائے اعظم کی ایک کانفرنس کرنا چاہی لیکن اکثر ملکوں کا جواب یہ تھا کہ حکومتیں اسلامی نہیں بلکہ قومی حکومتیں ہیں۔
عالمی سطح پر قیام امن کی مساعی گزشتہ صدی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئیں ۔ اقوام متحدہ اور دیگر تنظیمیں انہی مسائل کے نتیجے میں قائم ہوئیں لیکن اقوام متحدہ میں ملکوں اور قوموں کو مساوی حقوق فراہم نہ کیے گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جدید تہذیبوں کی علمبردار دوسری قوموں کو کسی لحاظ سے بھی اپنے ہم پلہ نہ سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلے میں اسلام کسی ایک طبقہ یا ملک یا قوم کے لئے نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کے لیے ہے۔ اسلام کی رو سے کسی انسان کو دوسرے پر رنگ و نسل یا قومیت کی بنیاد پر قطعی کوئی برتری یا افضلیت حاصل نہیں ہے۔
اسلام نے اجتماعی سلامتی سے متعلق واضح قوانین اور قواعد بیان کیے ہیں۔ اسلام تمام نوع انسانی کے لیے اتحاد و امن کی جو بنیاد فراہم کرتا ہے۔وہ کوئی اور مذہب، عقیدہ یا نظریہ فراہم نہیں کرتا۔ اسلام تو ہے ہی امن و آتشی اور سلامتی کا مذہب۔ قرآن حکیم میں تمام انسانوں کے لیے ایک ہونے کا ذکر یوں کیا گیا ہے:"اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس پروردگار نے تم کو اکیلی جان سے پیدا کیا۔ جس نے خود اس کے جوڑے کو پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت دنیا میں پھیلا دیے" (النساء1)۔
اسلام نسل، قومیت، زبان یا رنگ کی بناء پر انسان اور انسان میں تمیز روا نہیں رکھتا۔ بلکہ مختلف العقیدہ لوگوں کو باہمی اتفاق سے رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ وحدت اسلامی کا مقصد کسی ملک، قوم یا نظریہ کی مخالفت نہیں بلکہ یہ اتحاد امن عالم کے لئے باعث تقویت اور نوع انسانی کیلئے وجہ سلامتی ہے۔
ملت اسلامیہ کے اتحاد و یگانگت کی آرزو مسلمانوں کی غالب اکثریت کی آرزو ہے۔ تکمیل آرزو کی منزل تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے عدم اتحاد اور انتشار کے اسباب کا پتہ چلایا جائے پھر اتحاد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لیا جائے۔ پھر تکمیل آرزو کی خاطر ایک حقیقت پسندانہ منصوبہ تیار کیا جائے۔ آخر میں اس منصوبے کی تکمیل کے لئے سعی و عمل کی انتہا کر دی جائے۔ تاہم آرزو بھی زندگی کی علامت ہے۔ کیونکہ آرزو ہی سعی و عمل کی محرک بنتی ہے۔ ہر قوم کی اپنے عقائد ہیں۔ ان عقائد سے اس کی وابستگی اور وابستگی کی پختگی اس کے فکر، کردار اور عمل کی سمت کا تعین کرتی ہے۔
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد