Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Ali Shmmas
  4. Baat To Sirf Ghor Karne Ki Hai

Baat To Sirf Ghor Karne Ki Hai

بات تو صرف غور کرنے کی ہے

آج اکیسویں صدی ہم پر مسلط ہوچکی ہے۔ یہ سوال ہر صاحبِ نظر کے ذہن میں اُبھر رہا ہے کہ آئندہ کیا ہو گا؟ ہر آنے والی چیز کا استقبال ایک فطری امر ہے۔ مستقبل کے حادثات کو پہلے سے کون محسوس کرسکتا ہے؟ لیکن اصحابِ نظر و خبر کا زاویہ خرد عام انسانوں سے جدا ہوتا ہے۔

اگر وسعتِ نظر کو مزید کشادگی عطا کی جائے، تو اکیسویں صدی کے تناظر میں آنے والے دور کی تصویر دھندلی سی نہیں بلکہ نہایت واضح دکھائی دے گی۔ یہ تصویر بھیانک بھی ہے اور درد انگیز بھی۔ اس کے خدوخال خوش فہمیوں یا مصنوعی مسکراہٹوں نے ترتیب نہیں دیے، بلکہ یہ تو حالات کی تخلیق ہے۔ وہ حوادثِ زمانہ جو انسانی زندگی کا لہو چوس کر اسے بےجان "مونالیزا" کا پرتو بخش رہے ہیں۔ قطرہ قطرہ رستی ہوئی موت، اور بوند بوند کا خراج لیتی ہوئی گردشِ زمانہ انسانی زندگی کا پیچھا اتنی آسانی سے چھوڑنے کو تیار نہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آج جو ہم بوتے ہیں، آنے والے کل میں وہی کاٹتے ہیں۔ اندھیرے بو کر، روشنی کے شجر کے پھوٹنے کی تمنا کرنا بےوقوفی ہے۔ غربت و افلاس کا جنگل اُگاکر، خوشحالیوں کے ثمر کی آرزو کرنا، دیوانے کا خواب ہے۔ ہم نے بیسویں صدی کو جس طرح عرصہ ظلمات میں تبدیل کیا ہے، وہی تاریکیاں اکیسویں صدی کے تناظر میں مہیب تر بن جائیں گی اور عام آدمی کا کرب پہلے سے چند ہو جائے گا۔

ہمارے حالات کل بھی تلخ تھے اور آج بھی تلخ ہیں۔ عام آدمی کل بھی مرمر کے جیتا تھا اور آج بھی حوادثاتِ روزگار کا اسی طرح شکار ہے۔ اس لیے آنے والا کل اس کیلئے خوشحالی کی نوید نہیں بلکہ مزید بدحالی کا پیغام لے کر آئے گا۔ خدا کا کرم ہے کہ، پاکستان ایٹمی قوت بن گیا اور جوہری توانائی کے استعمال کے حوالے سے خودکفیل ہو گیا۔ کمپیوٹر انٹرنیٹ نظام نے، صدیوں کے فاصلے ہفتوں میں طے کرنے کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے۔

روز افزوں ایجادات، مستقبل قریب اور مستقبل بعید کے ظاہری خدوخال کو مزید حسن عطا کریں گی۔ ٹیکنالوجی انتہا کو چھونے لگے گی اور وہ بہت کچھ ہو گا جو آج نہیں ہے، مگر سوال ایک آدمی کا ہے جو پیٹ بھرنے کیلئے کھانا، تن ڈھانپنے کیلئے لباس، سادگی سے زندگی بسر کرنے کیلئے مکان اور اولاد کیلئے رزق کے عام درجے کے ذرائع کا تمنائی ہے۔ جس کی آرزوؤں کی فہرست لامتناہی نہیں بلکہ نہایت مختصر ہے اور جو ازل سے باعزت زندگی کا آرزومند ہے۔

جب ہم عام آدمی کے مسائل کا جائزہ لیتے ہیں، تو اکیسویں صدی اس کیلئے محض کیلنڈر کے تبدیل ہونے کا نام نظر آتی ہے۔ سالوں اور صدیوں کانام بدل دینے سے مقدر نہیں بدلا کرتے۔ خوراک کی فراہمی اور ضروریاتِ زندگانی کا مہیا ہونا، ایک ایسی حقیقت ہے جسے کسی حالت میں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ حالات کی تصویر ناقابل یقین حد تک بھیانک ہے۔ اپنے ہاتھوں سے اپنی بربادی کی داستان رقم کرنے والے ذلت و رسوائی کے حقدار ہوتے ہیں۔

ایک عام آدمی کوئی اقتصادی ماہر یا معیشت دان نہیں ہوتا، بلکہ وہ تو ان تراکیب کے مفہوم سے بھی ناآشنا ہے۔ اسے تو بس زندگی کا وسیلہ چاہئے۔ چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ محض نعرے اور جذباتی سلوگن کسی کو لیڈر تو بنا سکتے ہیں، مگر دو وقت کی روٹی کی ضمانت مہیا نہیں کر سکتے۔ جہاں تک سیاسی قائدین اور لیڈروں کا تعلق ہے، ہمارا ملک اس سلسلے میں آخری اندازے سے بھی ذیادہ خودکفیل ہے۔ کاش! ممکن ہوتا تو ہم سالانہ اپنے سیاسی لیڈروں کی ایک بڑی تعداد، غیر ممالک کو برآمد کرکے زرِمبادلہ کما لیا کرتے۔

جب زرعی رقبہ کم سے کم ہو جائے، تو عام آدمی کی زندگی کا دارومدار صنعتی ذرائع پر ہوتا ہے۔ ہم بجلی کے معاملے میں بھی اتنے خوش قسمت نہیں ہیں، ہم اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کالاباغ ڈیم نہیں بنا سکے۔ جب بھی کالاباغ ڈیم کو بنانے کے سلسلے میں کوئی پیشرفت ہوتی ہے۔ صوبائی عصبیت کا اژدہا پھنکارنے لگتا ہے اور ہمارے منصوبہ ساز وہیں ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار ایک صوبے کا نہیں، بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ مگر اس عظیم منصوبے کو صوبائی تعصب اور سیاست نوازی کی بھینٹ چڑھاکر، ہم اپنی ہی ہاتھوں سے اپنا مستقبل تاریک بنا رہے ہیں۔

اقتصادی وسائل پر قابو پانے کیلئے عام آدمی ملازمت کا سہارا لیتا ہے۔ سکول، کالج، بینک، کارخانے، سرکاری دفاتر اور درجنوں ادارے ہیں، مگر اقتصادی صورتحال نے مسائل کے بارے میں ہمہ وقت سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ نوکریاں ایک خواب بن کر رہ گئی ہیں۔ اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے والے بھی سڑکوں پر جوتیاں چٹخا رہے ہیں۔ ہمارے تاریک ماضی کے مکروہ صفت سیاسی قائدین کی بد اعمالیاں، ہمیں نوشتہ دیوار پڑھنے پر مجبور کررہی ہیں۔ ملک کس نے لوٹا؟ مہنگائی کیسے ہوئی؟ احتساب کس کا ہوا؟ سزا کسے ہوئی؟ یہ باتیں اب بہت پرانی ہو چکی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ غریب کے ساتھ کیا کِیا گیا؟ کسی بااثر کو سزا ملی یا نہیں ملی، اس سے کوڑے کے ڈھیر سے کھانا تلاش کرنے والے کو کوئی سروکار نہیں۔ دو وقت کی روٹی اب قصہ پارینہ بن چکی ہے، ایک وقت کی روٹی کہنا میرے خیال میں درست ہے۔ اس کو تو ایک وقت کی روٹی سے سروکار ہے۔ وہ ایک وقت کی روٹی چاہے نوازشریف دے یا عمران خان۔ اس کا کرپشن سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کرپشن دور میں اگر وہ پٹرول باسٹھ روپے لیٹر خرید رہا تھا اور آج ایماندار دور میں وہ ایک سو بیس روپے خرید رہا ہے، تو وہ دہائی تو دے گا نہ، کہ کرپٹ دور ہی ٹھیک تھا۔

میں اپنے کالم میں جتنا مرضی لکھ دوں۔ جتنے صفحات بھرنا چاہوں بھر دوں۔ جتنی سینہ کوبی کرنا چاہوں کر دوں۔ لیکن بات تو صرف میرا کالم پڑھنے کے بعد غور کرنے کی ہے۔ اگر غور نہیں ہو گا، تو میرے کالم لکھنے کا مقصد ادھورا ہے۔ ہم کون ہیں؟ اور یہ کائنات کیا ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔ اس پر بھی بات تو صرف غور کرنے کی ہے کیونکہ

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ اطاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar