Zillat Ke Gahak
ذلت کے گاہک

ہمیشہ سے سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں کہ پیسہ، شہرت یا محبت ہو عزت ہر چیز پر برتری رکھتی ہے۔ مال و دولت کی اہمیت اپنی جگہ مقدم ہے مگر اب بھی پاکستانی معاشرے میں عزت کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ ہر انسان ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا کر عزت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی لغزشوں کے معاملے میں رب سے نا بھی ڈرے مگر دنیا والوں سے ڈرتا ہے اور ہر ممکن انھیں چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
خاص طور پر ہمارے خواص کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہےکہ وہ اپنی نیک نامی اور عزت کو برقرار رکھ سکیں۔ مگر کیا کریں پاکستان میں تبدیلی کے نام پر جو ایک سونامی آیا تھا وہ اس معاشرے کے سارے اقدار ساتھ بہا کر لے گیا۔
امت مسلمہ کے نام نہاد لیڈر صاحب خود تو جیل میں دیسی گھی کی مٹن کڑاہی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اور ان کے پیروکار، دل ودماغ سے اندھے ہو کر ان کی تقلید کرنے والے، رسوا ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس کا عہدہ پورے پاکستان میں قابل احترام سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک اسلامی ملک کے منصف کی کرسی ہے۔ جس پر بیٹھ کر انصاف کرنے والا اسلامی اقدار کو بھی مد نظر رکھتا ہے۔ اسے یہ یاد رکھنا پڑتا ہے کہ میں عادل ہوں اور اپنے عدل کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو جواب دہ بھی ہوں۔ مگر اس عدل کی مسند پر بیٹھنے والے خود کو ہی بدنام کر رہے ہیں۔ کس قدر تعجب کی بات ہے۔
ہمارے سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک کلپ ٹی وی پر چلا۔ جس میں دکھایا گیا کہ ثاقب نثار کسی ایسی جگہ پر گئے جہاں خواجہ سعد رفیق پہلے سے موجود تھے۔ جب سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار اندر داخل ہوئے اور سلام کے لیے ہاتھ بڑھایا تو خواجہ سعد رفیق انھیں نظر انداز کرتے ہوئے باہر نکل گئے۔
خواجہ سعد رفیق کے پاس اس عمل کی یقیناً مضبوط وجہ ہوگی۔ بالکل اسی طرح جیسے صحافی عبد القیوم صدیقی کے پاس اپنے عمل کی ٹھوس وجہ اور جواب تھا۔ لیکن یہ سب باتیں درست ہونے کے باوجود تکلیف دہ محسوس ہوتی ہیں۔
کیا ایک شخص اتنا اہم تھا جس کے پیچھے اپنی عزت داؤ پر لگا دی اور اس کے نزدیک اس بات کی کوئی قدر بھی نہیں۔
ہماری سوسائٹی میں کس کی عزت نہیں رہی۔ جس کا دل چاہے پاک فوج کی تذلیل کرے، شہداء کی بے حرمتی کرے، صحافیوں پر الزام لگا دے، سیاستدانوں کو کرپٹ کہہ دے۔ اور اس سارے تماشے میں عوام پستی جا رہی ہے۔ کسی کو احساس ہی نہیں۔
لوگوں کو اپنا کھانا پینا پورا کرنا مشکل ہے اور اشرافیہ کو اس بات کی فکر ہے کہ کسی طرح الیکشنز ہو جائیں۔ اور ہم جلدی جلدی وزیر بن کر حلف اٹھا لیں۔
آخر پاکستانی معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ کسی بھی انسان سے اپنی عزت سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اشرافیہ گارڈز کے بغیر اپنے گھر کے باہر بھی کھڑے نا ہو پائیں گے۔
ہر اعلیٰ عہدے کی عزت تب تک ہوگی۔ جب تک وہ عہدے پر براجمان ہوگا۔ جیسے ہی وہ ریٹائرڈ ہوگا۔ لوگ اس کا نام لے کر اسے پکاریں گے۔ اور نظر انداز کرتے ہوئے آگےبڑھ جائیں گے۔ جس امت مسلمہ کے لیڈر کے پیچھے یہ ذلتیں خریدی جا رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے اسے ایک فیصد بھی پرواہ نہیں ہوگی۔
میری اشرافیہ سے درخواست ہے کہ اس دنیا کے بازار میں ذلت کے گاہک نا بنیں، بلکہ عزت کمائیں۔ ہر وہ کام کریں جو آپ کے عہدے کا تقاضا ہے۔ دوسروں کو بچاتے بچاتے خود کو گڑھوں میں مت گرائیں۔

