Zahiri Khubsurti
ظاہری خوبصورتی
دنیا بھر میں ظاہری خوبصورتی کے معیار مختلف ہیں۔ یورپ میں سانولی رنگت کو پسند کیاجاتا ہے اور سن باتھ لے کر اپنی جلد کو جلایا جاتا ہے۔ ہم ایشیائی گوری رنگت کے دیوانے ہیں۔ ہماری خواتین بالخصوص اور مرد حضرات بالعموم گوری رنگت حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ آپ یقین کریں میں نے ذاتی طور پر لوگوں کو گوری رنگت کے جنون میں مبتلا دیکھا ہے۔ ہمارے گھرانوں میں لڑکے کا ہمسفر ڈھونڈتے وقت اب بھی ظاہری خوبصورتی سے متاثر ہوا جاتا ہے۔
بڑی بڑی آنکھیں، گورا رنگ، لمبے بال، مناسب قد و قامت اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ جن کے پاس نہیں وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی زندگی کا بہت سا وقت گنوا دیتا ہے۔ خود کو بدصورت سمجھ کر تمام عمر دل میں کہیں نا کہیں حسرت پالتا رہتا ہے اور بعض اوقات احساس کمتری جیسے خطرناک جزبے کی لپیٹ میں بھی آجاتاہے۔
ہم پاکستانی لوگ چاہے کتنے بھی تعلیم یافتہ ہو جائیں۔ ہم ظاہری خوبصورتی سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔ ہمارا دھیان سر پر موجود بالوں کی طرف پہلے جاتا ہے۔ مگر اس سر میں موجود دماغ کو ہم اہمیت نہیں دیتے۔ ہم ہاتھوں کی رنگت اور بناوٹ کو سراہتے ہیں۔ مگر ان ہاتھوں کے کاموں، اور ان انگلیوں سے لکھے گئے، الفاظ کو اہم نہیں سمجھتے۔
ہم یہ شکر نہیں کرتے کہ پاؤں چلنے کے لیے سلامت ہیں۔ ہم پاؤں کی رنگت کو فوکس کرتے ہیں۔ ہمیں گلابی ہونٹ اچھے لگتے ہیں۔ مگر ان ہونٹوں کی بے لوث مسکراہٹ پر ہمارا دھیان کم ہی جاتا ہے۔ سریلی آواز ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہے۔ مگر اس آواز میں کہا کیا جارہا یہ اہم نہیں ہے۔
ہمارے اداروں، خاص طور پر پرائیویٹ اداروں میں آج بھی ظاہری خوبصورتی کو فوکس کیا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت ہر ادارے میں لیڈی ریسپشنسٹ کا عہدہ ہے۔ حتیٰ کہ ہم اپنے لیڈرز چنتے وقت بھی اپنے اس سطحی معیار کو سامنے رکھتے ہیں۔ ہم اپنے لیڈرز کے چلنے کے انداز، ہاتھوں کی خوبصورتی بالوں کے اسٹائل پر توجہ رکھتے ہیں۔ انھیں سراہتے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں قومی لیڈرز اپنے ظاہری حسن پر خاص توجہ دیتے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ستر سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود ہمارے لیڈرز کے بال کبھی سفید نظر نہیں آتے۔ چہروں ہر کبھی عمر رفتہ کا اثر نہیں جھلکتا۔ ماسوائے تب، جب یہ جیل میں بند ہو جائیں اور انھیں ذاتی اشیاء نا مل پائیں۔
عام عوام چالیس کے بعد ہی بوڑھے لگنے لگ جاتے ہیں۔ جبکہ یہ اپنی خالص خوراک اور گرومنگ کے باعث ہمیشہ نوجوانوں کے لیڈر بنے رہتے ہیں۔ ان کا کھلنڈرا پن جانے کانام ہی نہیں لیتا۔
مجھے پتا ہے ناقدین فورا مجھ پر حسد، جلن کا فتویٰ لگا دیں گے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ جمہوریت میں لیڈر کی ذاتی زندگی کچھ بھی نہیں ہوتی۔ یہ بادشاہت کا دور نہیں، جو ہم لیڈرز کی خوبصورتی اور وعدوں سے اپنا پیٹ بھر لیں۔
کیا آپ کسی بھوکے کو روٹی کی بجائے مریم نواز شریف، عمران خان یا کسی بھی اور لیڈر کی تصویر دے سکتے ہیں کہ بھائی تم ان کو دیکھ لو، تمہارا پیٹ بھر جائے گا۔ اور کھانے کے بعد اگر پھل فروٹ کھانے کو دل چاہے۔ تو مزید سیاسی رہنماؤں کی تصویریں دیکھ لو۔
میری اس تحریر کا مقصد کسی پر ذاتی تنقید نہیں۔ مقصد صرف یہ کہ ایک مخصوص طبقے کو بہلانے کے لیے اپنی خوبصورتی اور وجاہت کا استعمال کرنے والے یہ یاد رکھیں کہ پچیس کروڑ عوام کے مسائل اور طرح کے ہیں۔
عوام کو سستی اشیاء خوردونوش کی ضرورت ہے۔ بلوں میں کمی کی ضرورت ہے۔ آپ مزید ہسپتال بنانے کی بجائے ان وجوہات کو تلاش کیوں نہیں کر رہے، جن سے ملک میں کینسر اور گردوں کی بیماریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔
ملک میں سی سیکشن کی بہتات ہو رہی ہے۔ ہمارے نوجوان وٹامنز، کیلشم کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمیں صاف پانی میسر نہیں۔ آپ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے آگے پچیس کروڑ عوام کا حساب بھی دینا ہے۔ کیا روز محشر یہ سیاسی مشیر آپ کو مشورے دینے آئیں گے؟ یہ اس روز آپ کو پہچاننا بھی گوارا نہیں کریں گے۔
دجلہ کے کنارے ایک پیاسے کتے کی موت کا حساب خلیفہ وقت کو کانپننے پر مجبور کر دیتا تھا اور وہ خلیفہ جنھیں صحابی رسول ﷺ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔
تو آپ لوگ کون ہیں؟ اب بھی وقت آپ کی مٹھی میں ہے۔ اپنے اعمال کو درست کر لیں۔ کیوں کہ جب لوگوں کے ہاتھ روز محشر آپ کے گریبانوں کی طرف بڑھیں گے تو پروٹوکول اور سیکورٹی گاڑیاں بچانے نہیں آئیں گی۔
اپنی ظاہری خوبصورتی کے بل بوتے پر آپ بچگانہ ذہنوں کو وقتی طور پر بہلا سکتے ہیں۔ مگر جب یہ بچگانہ ذہن میچور ہو جائیں گے، تو باہر نکل کر آپ کے خلاف نعرے لگائیں گے۔ آپ کی تضحیک کرکے اپنی فرسٹریشن نکالیں گے اور کوئی بھی شخص ان کو اپنا کلٹ بنا کر استعمال کرے گا، ان کی محرومیوں سے فائدہ اٹھائے گا اور ان کا لیڈر بن کر ملک کو مزید تباہی کے دھانے پر لائے گا۔
دل میں وسوسہ آتا ہے کہ بیس سال بعد ایک اور عمران خان ہماری نوجوان نسل کو برباد کرنے کے لئے تیار نا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان پر اپنا رحم فرمائے آمین۔