Ye Kaisi Taqseem Hai?
یہ کیسی تقسیم ہے؟
ہمارا پیارا ملک پاکستان چودہ اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پاکستان ایک ایسے سورج کی طرح طلوع ہوا، جس کی آب و تاب نے دنیا کی آنکھیں چندھیا دیں۔ دشمنوں اور اغیار کو آج تک اس بات نے حیرت کے گہرے سمندر میں ڈبویا ہوا ہے کہ یہ ملک بن کیسے گیا، اور اب تک قائم ودائم کیسے ہے؟
اسی لیے اغیار ہمہ وقت ہمارے پیارے ملک کے خلاف کوئی نا کوئی سازش کرتے رہتے ہیں۔ اس سازش کے لیے کرداروں کی کمی نہیں۔ ہمارے اندر سے ہی انھیں گھر کے بھیدی مل جاتے ہیں۔
سوچیں ایک گھر میں رہنے والا لاڈلا بچہ بد تمیز اور نا فرمان ہو۔ گھر کے باقی افراد اسے سمجھا سمجھا کر تھک جائیں۔ مگر وہ سدھرنے پر تیار نا ہو۔ پھر مجبور ہو کر گھر کے بڑے اس پر پابندیاں لگا دیں۔ تا کہ شاید اسے عقل آ جائے۔
اور وہ بد تمیز، نا فرمان، نالائق مگر لاڈلا بچہ سدھرنے کی بجائے، گھر کے دشمنوں سے مل جائے۔ اپنے پی گھر کے خلاف بغاوت کرنے کے لیے اغیار سے ہاتھ ملا لے اور گھر کو نقصان پہنچانے کا سوچے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے، اس کا جواب آپ اپنے دل سے پوچھیں۔
ملک کے بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں۔ جن پر کوئی دو رائے نہیں ہوتی۔ نا ہی تقسیم ہوتی ہے۔ یہ معاملات بالکل لاوڈ اینڈ کلئیر ہوتے ہیں اور ان پر کوئی سیاسی جماعت بھی تنقید نہیں کرتی، جیسے پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ ہماری پاک فوج ہماری محافظ ہے۔ شہداء کی تکریم ہم پر فرض ہے۔ ہمارے قومی اور اسلامی تہوار، ہمارے اعزازات ہمارا اثاثہ ہیں۔ ملک کے بہت سے داخلی اور خارجی مسائل جن پر سب متفق ہوتے ہیں اور کوئی اختلاف نہیں کرتا۔
ایسا ہی ایک خوبصورت دن چودہ اگست کا ہے۔ جس پر سب قوم بغیر کسی اختلاف کے متحد ہو کر خوشیاں مناتی ہے۔ ہمارے بچپن سے لے کر بڑے ہونے تک ہم نے اس دن پاکستان کا جھنڈا اپنے گھر پر لہرایا اور گھر کو پرچم کی تصویر والی جھنڈیوں سے سجایا۔ کبھی کسی گھر کی چھت پر سیاسی جماعت کا جھنڈا نہیں دیکھا اور ناہی کسی سیاسی جماعت کا پارٹی ترانہ سنا۔
صرف ملی نغمے سنائی دیتے تھے۔ وہ ملی نغمے جن کی خوبصورت شاعری آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔
مگر میرے پیارے وطن پر یہ کس آسیب کے سائے چھا گئے۔ کس بد بخت دشمن کی نظر بد لگ گئی۔ یہ کیسی تقسیم پیدا ہوگئی کہ چند سالوں سے اس دن کی اہمیت سبوتاژ کرنے کےلئے پارٹی پرچم لگنا شروع ہو گئے۔ پارٹی ترانے بجنا شروع ہو گئے۔
آخر یہ تقسیم کس نے پیدا کی؟ یقینا اس کا اعزاز عمران خان کو جاتا ہے۔ جو ہر چودہ اگست کے پیارے دن سے پہلے اعلان کرتے ہیں کہ کارکنان باہر نکلیں اور احتجاج کریں۔ حقیقی آزادی طلب کریں اور اندھی محبت کے پیروکار، رہبر کے پیچھے چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ چاہے آگے گہری کھائی ہی کیوں نا ہو، یہ سفر رکتا نہیں۔
عمران خان آخر آپ حقیقت کو کب قبول کریں گے؟ اور اپنی ذات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے لیے کب سوچیں گے؟
اس ملک کی ترقی کی دیوار پر آپ نے جو ضربیں لگائی ہیں۔ ابھی تک ان کے نشانات مٹے نہیں۔ جس ملک نے آپ کو شہرت، پیسہ اور عزت دی۔ اسی ملک کے دفاع کو آپ کیوں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں؟
عمران خان آپ مغرب سے ہمیشہ متاثر رہے ہیں اور مغربی نظام کو سراہتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت آپ کی سابقہ بیوی اور تینوں بچے ہیں۔ جو وہاں زندگی گزار رہے ہیں۔
کیا آپ جو سہولتیں جیل میں لے رہے ہیں۔ یہ مغربی نظام میں ممکن تھیں؟
جیل میں سزا کاٹتے ہوئے بھی آپ پر کوئی پابندی نہیں، آپ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہیں۔ حکومت وقت کو للکارتے ہیں۔ متنازعہ بیانات دیتے ہیں۔ اپنی پسند کا کھانا کھاتے ہیں۔ کسی غریب کے گھر سے بڑے سیل میں رہتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ملک کی فوج پر جی بھر کر تنقید کرتے ہیں۔ آرمی چیف کے بارے میں ایسے بیانات دیتے ہیں۔ جیسے وہ آپ کا ہم جولی ہو۔ کسی کی عزت نہیں کرتے اور دوسروں سے احترام کے خواہشمند رہتے ہیں۔
شطرنج کی بساط پر جب ہارنے لگیں تو اس بساط کو الٹا نہیں دیتے۔ بلکہ شکست کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں۔ کچھ وقت کا وقفہ لے کر تازہ دم ہو کر دوبارہ کھیل کھیلتے ہیں۔ محلے کی عورتوں کی طرح لڑائی، گالم گلوچ نہیں کرتے۔ عمران خان امید تو نہیں مگر سمجھ جائیں تو اچھا ہے۔ اس ملک کو تقسیم نا کریں۔ میرا جج، میرا آرمی چیف، میرے لوگ، میرے ٹائیگرز، میرا صوبہ میرا سی ایم۔۔ خدارا اس تقسیم کو مزید نا بڑھائیں۔ ورنہ روز محشر بہت سے گناہوں کا طوق آپ کی گردن پر ہوگا۔