Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Ye Kaisa Nizam Hai?

Ye Kaisa Nizam Hai?

یہ کیسا نظام ہے؟‎

اپنے پیارے ملک پاکستان کے نظام کے بارے میں ایک عام عوام کی حیثیت سے سوچوں تو یقین مانئیے، لگتا ہے عام عوام کے پاس سوچنے کی صلاحیت اور دماغ نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اس نظام کے بارے میں جب سوچنا شروع کریں تو ہنسی آتی ہے پھر رونے کو دل کرتا ہے۔

بہت زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف کو اقامے پر نکالنے سے شروع کریں۔

وکیل اور ججز خود اس فیصلے پر حیران اور پریشان تھے۔ ایک ایٹمی طاقت کے حامل ملک کا وزیراعظم جسے نکالنے کے لئے اقامے جیسے بوگس کیس کا سہارا لیا گیا۔ مریم نواز شریف نے تو بیٹی ہونے کی سزا بھگتی کیپٹن صفدر کس کیس میں جیل گئے۔ آج تک سمجھ نہیں آئی۔

پھر وہی نواز شریف جو علاج کروانے گیا۔ اپنی مرضی سے واپس آیا۔ واپسی پر ائیرپورٹ پر بائیو میٹرک مشین پہنچ جاتی ہے۔ قانون ریلیف دینے کے لئے مکمل حرکت میں آ جاتا ہے اور عام عوام سوچتی ہی رہ جاتی ہےکہ مانا نواز شریف بے قصور تھا، تو جو عدالتیں لگتی تھیں، عوام کا پیسہ اور وقت برباد ہوتا تھا اس کا ذمہ دار کون ہے؟

کوئی جواب نہیں دیتا۔

ثاقب نثار یہ سارے فیصلے کرکے کہاں غائب ہوگئے۔ کچھ معلوم نہیں۔ جس ڈیم کی تعمیر کے دوران انھوں نے کرسی رکھ کر بیٹھنا تھا، اور پہرہ دینا تھا۔ اس ڈیم اور اس کے نام پر لئے گئے فنڈ کا کچھ پتا نہیں کہاں گیا؟ عطا بندیال ملک کی تاریخ کے تیز ترین فیصلے اور ریلیف دے کر گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو چکا ہے۔

عمران خان جو گرفتاری سے چند دن پہلے تک وئیل چئیر پر بیٹھا تھا وہ کیسے چلنے لگ گیا اور جیل میں ایکسرسائز سائیکل کی فرمائش کرنے لگ گیا۔ کوئی اس موضوع پر نا بات کرتا ہے اور نا ہی سوال پوچھتا ہے۔ بشریٰ بیبی کی آڈیو لیکس ہوتی ہیں۔ صاف اور واضح ثبوت، مگر کوئی گرفتار نہیں کرتا۔ سابقہ شوہر سے لے کر باقی لوگ بھی خوفناک سنگین الزامات لگاتے ہیں۔ مگر اس نظام میں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اگر بے قصور ہو تو ثبوت یا وضاحت پیش کرو۔

عام عوام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے۔ کوئی سوال پوچھنے والا نہیں کہ جلسوں پر لاکھوں روپے کیوں لگ رہے ہیں؟ کون سی نئی بات ان جلسوں میں ہو رہی ہے۔ وہی گھسا پٹا بیانیہ، وہی الزامات اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے والی سیاست، کیا ہم عوام کا یہی مقدر ہے؟

پرویز الہٰی اربوں کی کرپشن کرکے پرسکون بیٹھا ہے۔ مونس الہی باہر بیٹھا ان اربوں کو خرچ کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ ملک کی فکر میں گھل رہا ہے۔ ان دونوں باپ بیٹے کو تسلی ہے کہ تھوڑی مشکل پھر آسانی ہی آسانی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہی روایتی سیاستدان ثابت ہوا۔ وزیر اعظم بننے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور عام عوام سوچ سوچ کر پریشان ہے کہ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے عوام کی فلاح کے لیے کیا کارنامے سر انجام دئیے ہیں؟ پہلے ایم این اے یا ایم پی اے بن کر اپنے حلقوں کی عوام کے پاس تو جائیں۔ ان سڑکوں پر پیدل تو چلیں جن پر ہم عوام ٹھوکریں کھاتے چلتے ہیں۔ زرا وہ پانی تو پئیں جو ہم عوام خرید کر پیتے ہیں۔ زرا آئیں اور دیکھیں تو سہی عام عوام کھاتے کیا ہیں؟

پیسے لگا کر جلسے کرنا اور خطاب میں مخالفین پر تنقید کرنا، اور دوسروں کی سزا کا مطالبہ کرنا، کیا پاکستان جیسے ایٹمی طاقت کے حامل ملک کا وزیراعظم بننے کے لیے یہ قابلیت کافی ہے؟ کیا ہم عام عوام کا ذہنی معیار یہی ہے؟ کیا ہمارے مسائل کے حل کے لیے یہ کافی ہے؟

نو مئی کو جن لوگوں نے ملک کی عزت کو داؤ پر لگا دیا، پاکستان کی املاک کو نقصان پہنچایا، سزا ان لوگوں کو ملنا ضروری ہے۔ مگر ہمارے سیاستدان اپنے ہی رونے رونا بند نہیں کرتے۔ اپنی ذات اور انا کو پس پشت ڈالتے ہی نہیں۔

جیل میں بیٹھا امت مسلمہ کا نام نہاد لیڈر، اپنی پیشی پر ایسے دھمکیاں دیتا ہے۔ جیسے یہ ملک اس کی ذاتی ملکیت ہے۔ صحافی ہمیں بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے رہنما لوگوں کا جتھا لے کر نکلتے ہیں اور گرفتاری سے بچ جاتے ہیں اور عام عوام حیران ہیں کہ کیا ملک کی سیکورٹی فورسز اس طرح کام کرتی ہیں؟

کیا کسی کو گرفتار کرنا اتنا مشکل کام ہے؟ یا صرف شیر افضل خان مروت کی گرفتاری مشکل ہو رہی ہے؟

عمران خان کی حکومت نے عوام کو معاشی اور اخلاقی طور پر منہ کے بل گرا دیا تھا۔ ہم عام عوام اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمارے سیاستدانوں کو الیکشنز، جلسے اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی فکر ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے مچھلی بازار ہے۔ کوئی سزا کا مطالبہ کر رہا ہے، کوئی دھمکیاں لگا رہا ہے، کوئی وزیر اعظم بننے کی خواہش کا اظہار چیخ چیخ کر بول رہا ہے۔ کوئی لیول پلے فیلڈ مانگ رہا ہے۔ کوئی ڈیل کی خبر سنا رہا ہے اور کوئی بات ہوگئی ہے کا راگ الاپ رہا ہے۔

شہباز شریف جیسا کام کرنے والا میچور، سنجیدہ بندہ بھی بھائی کے خلاف متوقع سازش کو ناکام بنانے کا اعلان کر رہا ہے۔ میڈیا ہر کسی کی ڈگڈگی پر اپنا ناچ پیش کر رہا ہے۔ سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں اور عوام کا دل چاہتا ہے کہ ان لوگوں کو شٹ اپ کال دے دیں۔ اور کانوں پر ہاتھ رکھ لیں۔

ملک کے لیے الیکشنز اگر نا گزیر ہیں، تو کروا لیں کس نے آپ کو روکا ہے؟ ہمارے پیسے برباد کر لیں۔ کون پوچھنے والا ہے؟ اقبال نے کہا تھا۔

جمہوریت اک طرز حکومت ہے جس میں

لوگوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

تو گن لیں لوگوں کو، پچیس کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ دو سے ڈھائی کروڑ ووٹ، اور چند سو لوگ ہی کرتے ہیں۔ اس بار بھی کر لیں گے۔ کون سا کوئی نیا اور اچھوتا کام ہوگا۔

ہم عام عوام تو ویسے ہی اذیت پسند بن چکے ہیں۔ سیاستدانوں کے ہاتھوں جوتے کھاتے ہیں اور ان کے ہی آگے ناچتے ہیں۔ جو محافظ سرحدوں پر گولیاں کھاتے ہیں ان پر تنقید کرتے ہیں انھیں گالیاں نکالتے ہیں اور سروں پر جوتے مارنے والوں کو پروٹوکول دیتے ہیں۔

کسی بحث کے دوران ایک دوست نے کہا تھا کہ پاکستان میں زندہ رہنا ہے تو زیادہ سوچو مت، نقصان اپنا ہی ہوگا۔ آج اس بات کی سچائی کا شدت سے ادراک ہو رہا ہے۔ یہ نظام نہیں بدلے گا کیوں کہ یہ نظام پاکستان کی اشرافیہ کو بہت سوٹ کرتا ہے۔ انصاف کے طریقے کار بھی نہیں بدلیں گے۔ اگر سچ مچ انصاف ہونے لگا تو کوئی بھی باہر نظر نہیں ائے گا۔ یہی سچائی اور تلخ حقیقت ہے۔

Check Also

Ham Yousuf e Zaman Thay Abhi Kal Ki Baat Hai

By Syed Tanzeel Ashfaq