1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Siasat Ya Khoon Ashaam Bala

Siasat Ya Khoon Ashaam Bala

سیاست یا خون آشام بلا‎

پاکستان میں ضمنی الیکشنز ہوں یا عام انتخابات الیکشنز کمپین ہو یا سیاستدانوں کے جلسے۔ کوئی نا کوئی دلخراش حادثہ ضرور پیش آتا ہے۔ پتا نہیں اس ملک کو جمہوریت اور جمہوری عمل راس کیوں نہیں آتے؟ یہاں سیاست انسانی خون کی قربانی کیوں مانگتی ہے؟ سمجھ سے بالا ہے۔

سوشل میڈیا پر احسن اقبال کی وائرل تصویر دیکھی۔ جس میں وہ انتہائی افسردگی کے ساتھ ایک بے جان وجود کو دیکھ رہے تھے۔ اس بے جان وجود کا خاندان، اولاد اور بیوی بھی ہوگی۔ لیکن اس نے اپنے لیڈر کی محبت پر سب کچھ قربان کردیا۔ اپنے محبوب لیڈر کی صرف ایک افسردہ نظر جو اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتی۔

اپنے لیڈر کے لیے زندگی کی بازی ہارنے والا، اندھی محبت کا پیروکار، یہ پہلا شخص نہیں ہے۔ دہائیوں سے یہ واقعات ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ جنھیں اللہ کی مرضی کہہ کر صبرو شکر کی تلقین کر دی جاتی ہے۔ اور ہماری معصوم عوام اس جھانسے میں اپنی پوری رضامندی سے آتی ہے۔

واقعات تو شاید بے شمار ہوں گے۔ مگر مجھے چند وہ واقعات یاد آتے ہیں۔ جن پر دل کی گہرائیوں سے دکھ ہوا تھا۔ عمران خان کے جلسے میں بے دردی سے مرنے والا وہ جوان، جسے پانی پلانے کے اعلان پر شاہ محمود قریشی نے کہا تھا، خیر ہے یار خیر ہے۔

شاید جیل میں شاہ محمود قریشی کو وہ واقعہ یاد آتا ہو۔ شاید عمران خان کو ظل شاہ یاد آتا ہوگا۔ یا وہ خاتون صحافی جو کنٹینر سے گر کر، اپنے بچوں کو روتا چھوڑ کر چلی گئی۔

نواز شریف جب اپنی حکومت کے جانے کے بعد ووٹ کو عزت دینے کے لیے، ریلی لے کر لاہور آرہے تھے۔ تو شاید ان کو وہ معصوم بچہ یاد آتا ہوگا، جو ان کو دیکھنے کی خواہش کی تکمیل میں پروٹوکول گاڑی کی ٹکر برداشت نا کر سکا اور اپنے خاندان کو روتا چھوڑ کر چلا گیا۔ پروٹوکول کی گاڑیاں کس طرح لوگوں کو کچلتی، آگے بڑھ جاتی ہیں۔ پھر چاہے وہ عمران خان ہو یا سی ایم پنجاب ہو۔ اس راستے پر سبھی ایک پیں۔

پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کے لیڈر نے کبھی تنہائی میں یہ سوچا کہ ایسے ناحق قتل اگر روز محشر ان کے نامہ اعمال سے نکل آئے تو ان کا انجام کیا ہوگا؟ اس فانی دنیا میں توآپ سیاست کو ایک خون آشام بلا کی صورت میں پال رہے ہیں روز محشر کیا کریں گے؟

اس دن تو اللہ بتادیے گا کہ بادشاہ کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے انبیاء کرام کو بغیر حساب کے نہیں چھوڑنا، تو آپ لوگ کون ہیں؟ آپ کے یہ عہدے کس کام کے؟

کیا ہے یہ جمہوریت اور کیا ہے یہ سیاست؟ ہم عوام کا پیسا ہم پر خرچ کرنے والے سیاستدان۔۔ کس بات کے پروٹوکول لیتے ہیں یہ؟ ہمارے ووٹوں سے عہدے انجوائے کرنے والے۔ خود کو کیوں ناگزیر سمجھتے ہیں؟ صرف ہم عام عوام کی بے جا اہمیت کی وجہ سے۔

عمران خان جیل کی سہولیات کو دیکھیں، کس کے پیسے سے انجوائے کر رہا ہے؟ ہم عوام کے ٹیکسز کے پیسے سے۔ سابقہ خاتون اول بشری بیگم جو عوام کے پیسوں سے ٹیسٹ کروا رہی ہیں۔ کیا ان کے پاس اپنے علاج کے لیے بھی پیسے نہیں؟

عام عوام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کے الیکشنز کے تماشے ہی ختم نہیں ہوتے۔ خود بھی وزارتیں لے لیں۔ اپنے بچوں کو بھی دلوا دیں اور آنے والے نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ کر لیں۔

جیل میں بیٹھا مسلم امہ کا نام نہاد لیڈر، جس پر اللہ تعالیٰ نے موت کا خوف عذاب کی صورت میں مسلط کر دیا ہے۔ وہ ہر وقت اپنی اور بیوی کی متوقع موت کو دوسروں پر ڈالنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اپنی زندگی سے اتنا پیار اور عوام کی جان، ایک فالتو شے۔ جسے پیروں تلے روند دیا جائے۔

پیسہ ادا ہونے سے بچوں کا باپ تو واپس نہیں آئے گا۔ نا ہی بیوی کو شوہر ملے گا۔

صاحب اقتدار اور اشرافیہ کو تنبیہہ ہے کہ اللہ رب العزت کے جلال کو آواز نا دیں۔ ورنہ داستان بھی نا ہوگی، داستانوں میں۔

معصوم عوام سے التجا ہے کہ لیڈرز سے محبت ضرور کریں۔۔ مگر اس محبت کے سمندر میں ڈوبنے سے پہلے ایک مرتبہ اپنے خاندان کے بارے میں بھی سوچ لیں۔ کیوں کہ آپ کی اس اندھی محبت کا سب سے زیادہ نقصان وہی اٹھائیں گے۔

Check Also

Roohani Therapy

By Tayeba Zia