Siasat Mein Bad Ikhlaqi Ki Amezish
سیاست میں بداخلاقی کی آمیزش
پچھلی دو دہائیوں سے ملکی سیاست میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان تبدیلیوں کا ایک مثبت پہلو یہ ہےکہ نہ صرف عام عوام کی ایک سیاسی اپروچ ڈویلپ ہوگئی، بلکہ نوجوان نسل بھی سیاسی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے لگی۔ اس میں بہت بڑا ہاتھ میڈیا کا بھی ہے۔ یعنی اپ اپنے پسندیدہ لیڈر کے جلسے میں اگر نا جاسکیں تو پھر بھی اپ لائیو انھیں سن سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے استعمال نے عوام کے ساتھ سیاستدانوں کے لئے بھی آسانی پیداکردی ہے۔ سیاستدان اپنا پیغام گھر گھر پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ پیغام اور بیانیہ اگر صرف سیاسی ہوتا تو بہت بہتر ہوتا۔
مگر کیا کریں خود کو ملک اور ملت اسلامیہ کا لیڈر کہنے والے نے نوجوانوں کو بد اخلاقی کا سبق دینا شروع کر دیا۔ اور الییٹ کلاس کی وہ خواتین جن کے پاس سوچ اور کرنے کے لئے کام کم مگر وقت وافر مقدار میں موجود تھا۔ اس بیانیے کے زیر اثر آنا شروع ہوگئیں۔
اب حال یہ ہے کہ اپنے نام نہاد لیڈر کا اصل بھیانک چہرہ دیکھنے کے باوجود انا اس بات کو ماننے کو تیار نہیں۔
نو مئی کے تکلیف دہ واقعے کے بعد کافی تبدیلیاں آئیں۔ ان والدین کو ہوش آیا جو اپنے بچوں کے مستقبل کو ایک جماعت کی بھینٹ چڑھا رہے تھے۔ لیکن جو تکلیف اور اذیت انھوں نے کاٹی یا کاٹ رہے ہیں۔ کیا عمران خان اس کا مداوا کر سکے گا؟ کیا ٹوئٹ کرکے اپنا فرض پورا کرنا درست ہے؟
فرض کریں نو مئی کا دن ہے عمران خان خاموشی سے گرفتاری دے دیتا، عدالت میں کیس چلتا، ضمانت مل جاتی اور کوئی تماشا نا ہوتاجناح ہاؤس نا جلتا۔ ملکی اور عوامی املاک کو نقصان نا پہنچتا۔ گرفتاریاں نا ہوتیں۔ شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی نا ہوتی۔ کیس چلتا اگر عمران خان بے قصور ہوتا تو رہا ہو جاتا۔ دوسری صورت اپیل کا آپشن تو موجود ہی تھا۔۔
لیکن پھر عمران خان اور بشری بیگم کی انا کو تسکین کیسے پہنچتی؟ وہ کیسےبتاتےکہ ملک یا ادارے نہیں اہم ہم ہیں۔ ریڈ لائن پاکستان نہیں بلکہ ہم دونوں ہیں۔
کیا تحریک انصاف کا پیروکار یہ سوچتا ہے کہ میں کس شخص کی تقلید کر رہا تھا یا کر رہا ہوں؟ ان نوجوانوں کو دوسری عورت کی تزلیل کرنا کیا ان کے والدین نے سکھایا ہوگا؟ ہر گز نہیں۔ کوئ جاہل یا برے والدین بھی اولاد کی ایسی تربیت نہیں کر سکتے۔
اور سب سے زیادہ دکھ اس بات پر ہے کہ عمران خان نے کبھی کسی کو منع نہیں کیا۔ ظاہر ہے منع کیسے کیا جاتا جب خود ہی اپنے پیروکاروں کی تر بیت کی ہو۔ دھرنے کی تقاریر قوم بھولی نہیں۔ جہاں ہر روز کسی نا کسی کی عزت کی دھجیاں اڑائ جاتی تھیں۔
مجھے یاد ہے مریم نواز شریف ایک مرتبہ کسی کارنر میٹنگ میں اپنے کارکنان سے خطاب کر رہی تھیں۔ اسی دوران سامنے بیٹھے کسی شخص نے مخالفین کو گالی نکالی۔ لائیو خطاب تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مریم نواز شریف نے فوراً اس شخص کو ٹوکا اور کہا گالی نہیں دینی۔
یہ ہوتی ہے لیڈرز کی اپنے کارکنان کی تربیت۔۔ نا کہ یہ جو زیادہ اخلاق کے دائرے سے باہر نکلے وہ قیادت سے زیادہ قریب ہو جائے۔
عمران خان کی سیاست ان کے پیروکار سب پانی کی بلبلے ثابت ہوئے۔ جو دھوپ کی تمازت سے بھاپ ببن کر اڑ گئے۔ کہاں گئے وہ زمان پارک کے لنگر خانے؟ کہاں گئیں وہ خواتین جو ساری ساری رات مرد لیڈر کی عزت جان و مال کی حفاظت کرتی تھیں؟
بقر عید ہر ان کا نام نہاد لیڈر ٹوئٹ کرتا رہا۔ کیوں باہر نہیں نکلا اور کہا کہ ہاں سارا قصور میرا ہے مجھے گرفتار کرو اور سب کو چھوڈ دو۔
ہم نے تو یہی دیکھا ہے بےنظیر یا آصف علی زرداری ہو نواز شریف شہباز شریف مریم نواز شریف یا حمزہ شہباز شریف ہوں۔ یا کسی سیاسی پارٹی کا کوئی رہنما ہو وہ خود اگے بڑھ کر گرفتاری دیتا ہے۔ پر اپنے کارکنان پر آنچ نہیں انے دیتا۔
مگر یہ کیسا لیڈر ہے جو ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر ٹوئٹ کرتا ہے۔ اور کہتا ہے حقیقی آزادی کی جنگ لڑو۔
جو کہتا ہے یہ ملک میرے بچوں کے لئے خطرناک ہے۔ اور دوسروں کے بچوں کو جیلیں بھرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
قوم کے وہ لوگ جن کی آنکھوں پر ابھی بھی پٹی بندھی ہے۔ وہ اپنی انکھیں کھولیں اور اصل حقیقت کو محسوس کریں۔ وگرنہ ہاتھ میں صرف خسارے اور پچھتاوے ہی رہ جائیں گے۔