Shuhada Ki Takreem Aur Muskurahat
شہداء کی تکریم اور مسکراہٹ
6 ستمبر کو جی ایچ کیو میں شہداء پاکستان کے لیے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں اعلیٰ سطح کے عہدیدار یعنی وزیراعظم پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف مختلف صوبائی وزراء صوبائی وزیر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ شہداء کے خاندانوں کی بھی شرکت تھی۔ میں نے یہ تقریب لائیو نہیں دیکھی۔ کیوں کہ شہداء کے خاندانوں کی آنکھوں کے آنسو برداشت کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ میں جھلکیاں دیکھتی رہی۔ پھر ہمت پکڑی اور ساری تقریب ویڈیو کی صورت میں دیکھی۔
بہت مغموم کر دینے والی تقریب، جس نے آنکھوں کو نم نہیں کیا بلکہ آنسو رواں کر دیئے۔
اس تقریب کو آپ غور سے دیکھیں۔ آپ کو کسی شخص کے چہرے پر مسکراہٹ تو دور کی بات اس کا شائبہ بھی نظر نہیں آئے گا۔ انتہائی سنجیدہ چہرے، جو بتا رہے تھے کہ شہداء کے وارثوں کے ساتھ اس غم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ سنجیدگی، متانت اور بردباری ہمارے معاشرے کی روایت اور دین اسلام کا حکم ہے۔ ہم موت والے گھر میں جا کر پرسہ دیتے ہیں۔ غمزدہ کو گلے سے لگاتے ہیں۔ اس کے سامنے مسکرانے سے گریز کرتے ہوئے، آنکھیں جھکا لیتے ہیں۔
دوسری طرف دین اسلام میں کہا گیا کہ موت والے گھر میں تین دن تک کھانا پہنچایا جائے۔ کیوں کہ وہ سوگ میں ہیں۔ ان کو اللہ کی رضا میں راضی ہونے کی نصیحت کی جائے۔ اسی طرح یتیم اور بیوہ کے جذبات کا خیال رکھنے کو کہا گیا۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے یتیم بچے کے سامنے اپنے بچے کو پیار کرنے سے منع فرمایا کہ کہیں اس کے دل میں ملال نا پیدا ہو جائے۔
ہم سب مسلمانوں کا موت پر ایمان ہے۔ مگر اپنے پیاروں کی ناگہانی موت پر دل افسردہ رہتا ہے۔ تمام شہداء کے والدین باعث عزت و احترام ہیں۔ مگر کیپٹن محمد کاشف شہید، جن کی یونٹ 42 بلوچ رجمنٹ تھی۔ جو 21 اگست 2021 کو آوران میں شہید ہوئے۔ ان کے والد کی گفتگو سن کر آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوگئے۔ وہ بولے کہ لوگ کہتے ہیں وقت بہت بڑا مرہم ہے۔ آہستہ آہستہ یہ غم کم ہوتا جائے گا۔ مگر جوں جوں وقت گزر رہا ہے یہ غم کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ یقین مانیئے ان جملوں نے دل پر اثر کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں اپنے پیاروں کی ناگہانی موت کا غم سب پر بھاری ہوتا ہے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی وفات کے وقت آپ نے فرمایا دل غم سے رنجور ہے۔ مگر میں اللہ کی رضا پر راضی ہوں۔ اس پیارے بیٹے کو دفناتے وقت آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اگرچے آپ کا صبر عظیم تھا۔ اپنے پیاروں کی نا گہانی جدائی کا دکھ صرف وہی سمجھ سکتے ہیں۔ جنھوں نے اس دکھ کو خود پر محسوس کیا ہو۔
یہ وہ دکھ ہے، جو بلاول بھٹو زرداری کو سرعام آنسوؤں سے رونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ وہ دکھ ہے جو وزیر اعظم کی آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے۔ آرمی چیف کی بیوی کی آنکھیں نم کر دیتا ہے۔ ماوں کو غم کی شدت سے ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ وزراء کی آنکھیں جھکا دیتا ہے۔
مگر کیا کریں۔ جنھیں مسکرانے، بلکہ کہیں دل جلانے والی فیک مسکراہٹ ہونٹوں پر سجانے کی عادت ہو، وہ اس تقریب کو بھی خوشامدی ٹولے کی کوئی تقریب سمجھتے ہیں۔ جو لوگ صرف تقریب میں شرکت کی خوشی سے بحال ہو کر، اپنی کرسی کی ضمانت پکی سمجھ رہے ہیں۔ ان کی ذہنی پرواز کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے۔
پتا نہیں شہباز شریف کے دور حکومت کے بعد پنجاب کو کس کی نظر لگ گئی۔ یا ہم پنجاب والوں کو کسی ناکردہ گناہ کی سزا مل رہی ہے۔ صرف اللہ رب العزت ہمارے حال پر رحم فرما کر کوئی معجزہ کر سکتے ہیں۔