Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Shaoor Bara Zalim Hai

Shaoor Bara Zalim Hai

شعور بڑا ظالم ہے

بچپن میں ہم سب نے ایک کہانی کورس کی اردو اور انگریزی کتابوں میں پڑھی ہوئی ہے۔ پیاسا کوا یا Thirsty crow. اس کہانی میں کوے کو جدوجہد کے بعد کامیاب ہوتا دکھایا گیا ہے۔ یعنی پیاس بجھانے کے لئے مرتبان میں کنکر ڈالتے جاؤ پھر جب قلیل پانی اوپر آجائے۔ تو اپنی پیاس بجھا کر اڑان بھر لو۔ لیکن اگر کنکر ڈالتے جائیں اور مرتبان کنکروں سے بھر جائے، اور اندر کے قلیل پانی کو کنکر اپنے اندر جذب کر لیں، تو پھر کیا ہوگا؟ یہ کوئی نہیں بتاتا، نا ہی اس موضوع پر بات ہوتی ہے۔ اور کوئی حل بھی نہیں بتاتا۔

دنیا کے حالات جیسے بھی ہوں۔ مجھے سب سے پہلے اپنے ملک پاکستان کے حالات نظر آتے ہیں۔ یہ ملک کتنی جدوجہد سے حاصل کیا گیا۔ بتانا بے مقصد ہے۔ کیوں کہ نئی نسل کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اور چاہے جتنا بھی برا لگے، تلخ حقیقت یہی ہے۔ ہماری نئی نسل حال کو فوکس کرتی ہے اور تابناک مسقبل پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

پچھلی دو دہائیوں سے پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات کچھ اس طرح کے رہے ہیں کہ نئی نسل کو اس ملک میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا ہے۔ باقی رہی سہی کسر عمران خان کی ذہن سازی نے پوری کر دی اور اس ملک میں جج، عالم، جرنل، سیاستدان غرض کسی کی بھی کوئی عزت نہیں رہنے دی۔

اس عزت کو ختم کرنے میں میڈیا کا تو ایک مضبوط ہاتھ ہے ہی ان لوگوں کا اپنا بھی قصور ہے۔ اندازہ کریں۔ الیکشنز سے اب تک کے حالات کس سے ڈھکے چھپے ہیں۔ مگر کس کو پرواہ ہے۔

ایک طرف شہباز شریف کہتے ہیں کہ تنخواہوں سے لے کر چائے کا ایک کپ بھی قرض کے پیسوں سے ادا ہو رہا ہے، دوسری طرف خود شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری پر تعیش عشائیے اور ناشتے کروا رہے ہیں۔

مریم نواز شریف ایک مختصر رمضان پیکج دے کر دل کو تسلی دے رہی ہیں۔ ظاہر ہے جن گھرانوں میں کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ان کو ایک ہفتے کا فری راشن بھی غنیمت ہے۔ پھر چاہے اس کے لئے تصویر اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ہی ڈالنی پڑے۔

قومی اور صوبائی اسمبلی کا یہ حال ہے کہ ہر کوئی اپنے لیڈر کی تصویر لا کر زندہ باد کے نعرے لگا رہا ہے۔ کوئی حلوہ پوری کھا رہا ہے اور کوئی سگریٹ پیتے ہوئے چہل قدمی کرتے ہوئے خواتین کے حال دریافت کر رہا ہے۔ کوئی جوتا اور گھڑی دکھا رہا ہے اور کوئی اپنے لیڈر کے ماسک دشمنوں پر پھینک رہا ہے۔ غیرت مند پٹھان ایک رات کا ریٹ پوچھ رہے ہیں اور شہد کی بوتلیں پکڑے جانے پر بھاگنے والا صوبے کے ایم پی ایز کے ریٹ لگا رہا ہے۔ جن کو حکومت میں من پسند حصے نہیں ملے، وہ اجتجاج اور سڑکوں پر آنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

صحافی چیخ چیخ کر انقلاب کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ نواز شریف خاموش بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ جب بھی بولتے ہیں، سب سے پہلے اپنے اوپر کئے گئے ظلم کی بات کرتے ہیں اور اڈیالہ کا مکین سب کچھ برباد کرکے آٹھ کمروں میں پر سکون زندگی گزار رہا ہے۔ ایکسرسائز کی سہولت، ڈاکٹر کی سہولت، بہترین کھانا، ملاقاتیوں کی آمدورفت، زندگی سے اور کیا چاہیے۔

عوام کا ذہنی معیار اچھرہ واقعے میں نظر آگیا۔ ہم بھوکے ہمسائے کی فکر نہیں کرتے۔ مگر دین کی بے جا فکریں ہم عوام کو ضرور لاحق رہتی ہیں۔

علماء کرام رمضان کی برکتیں سمیٹنے کی تیاری میں ہیں۔ معاشرے کی تربیت بھاڑ میں جائے۔ زکوت، چندہ اور خیرات مل جائے اور وہ عوام جو بدقسمتی سے شعور رکھتی ہے، وہ حیران اور پریشان ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔

عوام نے ایک کوے کی طرح محنت کی۔ مگر نتیجے میں مرتبان امید کے کنکروں سے بھرتا گیا۔ بھولی عوام پانی کی آس میں کنکر پھینکتی گئی۔ مگر پانی نا ملا۔ کاش کے شعور پر بھی سوشل میڈیا کی طرح پابندی لگ جائے۔ تو زندگی کتنی خوشگوار ہوجائے۔ ہم اپنی خوبصورت سی ایم کو دیکھ کر ہاتھ چوم کر خوش ہوتے رہیں۔

آصف زرداری صاحب کے دوبارہ صدر بننے پر، یہ خوشی مناتے رہیں کہ ایک سویلین دوبارہ صدر بن رہا ہے۔ اسمبلیوں میں اپنے اپنے لیڈرز کے حق میں نعرے سن کر، تالیاں بجاتے رہیں۔

بیٹا باپ کو صدر کا عہدہ تحفے کی صورت میں دے رہا ہے۔ بھائی بھائی کو وزیر اعظم بنوا کے گھٹنوں کو ہاتھ لگوا رہا ہے۔ باپ نے فرمانبردار بیٹی کو وزارت دے کر حق ادا کر دیا۔ خاتون وزراء دھمکیاں دے رہی ہیں کہ ہماری لیڈر کو کچھ کہا تو اچھا نہیں ہوگا اور کوا پانی کی تلاش میں پھر ادھر ادھر اڑ رہا ہے۔۔

اللہ اس ملک اور اس کی بے بس عوام کے حال پر رحم فرمائے۔

Check Also

Guzarte Waqt Ka Sabaq

By Ismat Usama