Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Shahbaz Sharif Ke Sukh Yaad Aate Hain

Shahbaz Sharif Ke Sukh Yaad Aate Hain

شہباز شریف کے سکھ یاد آتے ہیں

چند سال پہلے میں نے فیس بک پر ایک تصویر دیکھی۔ شہباز شریف کا اکاؤنٹ تھا۔ ایک بے حد پر کشش تصویر لگی ہوئی تھی۔ کسی علاقے کا گرلز گورنمنٹ اسکول تھا۔ شہباز شریف کھڑے کچھ لکھ رہے تھے۔ غالبا کسی کو آٹوگراف دے رہے تھے۔ اردگرد سفید دوپٹے اوڑھے، عام شکل وصورت والی معصوم بچیاں تھیں۔ اس تصویر کی سب سے خاص بات یا کہہ لیں خاص کشش کیا تھی، وہ میں آپ کو بتاتی ہوں۔

شہباز شریف کے ساتھ کھڑی دو تین بچیاں انھیں جس محبت سے دیکھ رہی تھیں، وہ قابل دید تھا۔ ان بچیوں کی آنکھوں میں وہ محبت تھی۔ جو صرف اپنے پیار کرنے والے باپ کو دیکھ کر بچے کی آنکھوں میں امڈتی ہے۔ شاید ایک سر سری طور پر کھینچی گئی تصویر، جس نے دیکھنے والے کو اپنی کشش کے دائرے میں داخل کر لیا۔ میں نے شہباز شریف کے فلاحی منصوبوں کو دیکھنا شروع کیا۔

میٹرو بس بنے کافی دن گزر گئے، بچوں کی شدید ضد پر ہم انھیں میٹرو بس کا سفر کروانے لے گئے۔ سیکریٹریٹ سے سوار ہوئے اور گجومتہ تک کا پلان بنایا۔

آپ یقین جانیں اسٹیشنز اور بسوں کو دیکھ کر ہم بار بار اپنے لاہوری ہونے پر فخر کر رہے تھے۔ ہر چیز انتہائی صاف اور خوبصورت۔ لمبا سفر خواتین موجود ہوں تو خاموشی وہاں سے غائب ہو جاتی ہے۔ دس پندرہ منٹ بعد سب کو پتا چل گیا کہ ہم صرف سیر کرنے آئے ہیں۔ پہلے تو مجھ سے حیران ہو کر پوچھا گیا کہ اب آئی ہیں؟ پھر میری بس کی تعریف کرنے پر سب نے تعریفوں کے انبار لگا دیئے۔

ایک بوڑھی عورت جو گود میں طوطے کا پنجرہ رکھ کر بیٹھی تھی۔ بولی میں یہ طوطا اپنی بیٹی کے گھر لیجا رہی ہوں۔ پہلے میرے اتنے پیسے لگتے تھے۔ اب میں بیس روپے میں پہنچ جاتی ہوں۔ پھر اس بوڑھی عورت نے ہاتھ اٹھا کر شہباز شریف کو دعائیں دینا شروع کر دیں اور میں حیران ہو کر سوچنے لگ گئی کہ اقتدار کا اصل اثاثہ تو یہ دعائیں ہیں۔

میں نے شہباز شریف کو مکمل فوکس کیا۔ ان سے متعلق ہر خبر، ہر تجزیے، ہر تبصرے کو پڑھنا اور سننا شروع کر دیا۔

چند نقاد کے سوا کسی کی کوئی مضبوط تنقید سامنے نہیں آئی۔ میں نے اور میری فیملی نے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود لاہور میں ایک لگثرری لائف سے لطف اٹھایا۔ موسم بدلنے پر ڈینگی سپرے، ہسپتالوں میں مفت ادویات، گھر بیٹھے کچرے کے شاپرز کی سہولت، سڑکوں کی روزانہ دھلائی، پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپے، پانی کے فلٹر پلانٹ، فری لیپ ٹاپ اور سولر پینلز، بجلی، گیس کی سہولت، سیف سٹی پراجیکٹ، پنجاب فرانزک لیب، دانش اسکولز، سستا آٹا، سستی اشیائے خورد نوش، سستا چکن، آئل چینی۔۔ یقین مانیے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم باہر کے کسی جدید ملک کے جدید شہر کی سہولیات انجوائے کر رہے ہیں۔ پاکستان ڈے کی خوبصورت پریڈ ہم لاہور والوں کو بھولتی نہیں۔

مجھے یاد ہے ہم سب فرینڈز کہتی تھیں کہ اگر ہم میڈیا پر آکر کسی مسئلے کے لیے شہباز شریف کو پکاریں گے تو وہ فورا گھر تک پہنچ جائیں گے۔ عام عوام کو اپنے حکمران سے یہ امید، یہ محبت مجھے کبھی نظر نہیں آئی۔

ہمارے ہاں کہاوت مشہور ہے مرا ہوا یاد نہیں آتا، اس کے سکھ یاد آتے ہیں۔ عام عوام کو بھی شہباز شریف کے سکھ یاد آتے ہیں۔ ہم لاہور والوں کو ناجانے کس جرم کی سزا ملی کہ ہم ایک جدید شہر سے پسماندہ گاؤں پہنچ گئے۔

اندھے بھینسوں کی لڑائی میں چیونٹیوں کا کیا قصور جو پیروں تلے مسلی گئیں۔

آج تک اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ اس تبدیلی نے ہماری بربادی کیوں کی؟ انا کی جنگ اور اقتدار کی ہوس میں ہماری پرسکون زندگیوں میں بھونچال کیوں لایا گیا؟

صرف پچیس ہزار ماہانہ مشاہرہ کی خاطر اربوں روپے کا اخلاق تباہ کیا گیا۔ چند ہزار لوگوں نے عام عوام کی زندگیوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ سب سے زیادہ تکلیف تو عوام نے برداشت کی۔ کسی کو کیا فرق پڑا؟ ہم عوام کا معیار زندگی گر گیا۔ اشرافیہ تو پر سکون ہیں۔

لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں۔ کہ روز محشر شہباز شریف اپنی انہی نیکیوں کی وجہ سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے سرخرو ہو ں گے۔

Check Also

Ulta Sinfi Kirdar

By Najeeb ur Rehman