Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Saza Aur Jaza Ka Amal

Saza Aur Jaza Ka Amal

سزا اور جزا کا عمل

دنیا کا ہر ادارہ چاہے وہ ایک ملٹی انٹرنیشنل کمپنی ہو یا چھوٹا سا پرائیویٹ کارخانہ ہو، حکومتی ادارہ ہو یا پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی چھوٹا سا اسکول ہو۔ جہاں مختلف ذہنوں کے لوگ کام کریں گے۔ وہاں اختلاف رائے بھی ہوگا، ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خواہش بھی ہوگی۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش بری نہیں۔ مگر جب کسی اعلیٰ عہدے کے حصول کی خاطر ہر ناجائز کام جائز ہو جائے تو پھر خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے۔

پوری دنیا کے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی فوج ایک بے حد اہم اور منظم ادارہ ہے۔ چند لاکھ لوگ ایک بےانتہا سخت تربیتی دور گزار کر پچیس کروڑ عوام کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ اپنی جوانی، گھر والوں کی محبت پس پشت ڈال کر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں۔ اپنے ملک اور عام عوام کو بچانے کے لیے بارودی سرنگوں پر پاؤں رکھ دیتے ہیں۔ تصور کریں یہ کیسا جزبہ ہےکہ ساتھی اپنے ہی ساتھیوں کے جسموں کے ٹکڑوں کو جمع کرکے تابوت میں ڈالتے ہیں اور پھر دوبارہ اسی مقام کی طرف بڑھتے ہیں۔

دہشتگردی کی جنگ ہو یا سول آبادی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو فوج ہر جگہ عوام کی خدمت کے لیے موجود رہتی ہے۔ مگر کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ چند لوگوں کے غلط فیصلوں یا نااہلی کا نشانہ پورے ادارے کو بنایا جائے۔ سوشل میڈیا پر گھٹیا ٹرولنگ کی جائے۔

کوئی غنڈہ یا بدمعاش، جب کوئی غلط کام کرتا پکڑا جائے تو وہ اس غلطی پر شرمندہ نہیں ہوتا نا ہی اسے لوگوں کی فکر ہوتی ہے۔ مگر ایک پڑھا لکھا سفید پوش بندہ اپنی عزت کے بارے میں حساس ہوتا ہے اور اسے لوگ کیا کہیں گے، کی فکر بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح سیاستدان جیل سے نکل کر مظلوم بن جاتا ہے اور اگلے الیکشنز میں مظلومیت کے ٹچ کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتا ہے۔

جب حفاظت کرنے والوں سے کوئی فیصلہ غلط ہو جائے تو ان کا ہر جگہ تماشا بنانا ضروری نہیں۔ اداروں کے اندر ایسے نظام موجود ہوتے ہیں جو سزا اور جزا کا فیصلہ کرتے ہیں، یہ کام اسی نظام کے تحت ہونا چاہیے۔

ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے میں سوچتی ہوں کہ ہمیں خاموشی سے اداروں کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے۔ اگر ان کے ساتھیوں کے غلط فیصلے یا نا اہلیوں کے باعث ملک اور عوام کو تکلیف برداشت کرنی پڑی یا نقصان اٹھانا پڑا، تو اس بات کا احتساب ادارہ خود کرے۔ سزا کا بھی تعین کیا جائے اور یہ سزا خاموشی سے دی جائے۔ بالکل اس طرح جیسے ایک گھر میں موجود ایک بیٹے کی غلطی کی سزا گھر کی چار دیواری میں رہ کر دی جاتی ہے تا کہ گھر کے باقی افراد کی عزت رہ جائے۔

پاکستان ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے۔ اغیار اور دشمنوں کی بھرپور نظر اس پر جمی ہے۔ جب سے ہمارا پیارا ملک معرضِ وجود میں آیا ہے، تب سے اسے ناکام ریاست بنانے کا مکروہ عمل جاری وساری ہے۔

آپ سوچیں آپ کا ایک پیارا سا گھر ہو اور ساتھ والا ہمسایہ آپ کی جان کا دشمن ہو، تو آپ کتنی محتاط زندگی گزاریں گے۔ کیونکہ آپ کے گھر کی طرح ہمسایہ بھی مستقل رہائش پذیر ہے۔ نا وہ کہیں جائے گا اور نا ہی آپ اپنا گھر چھوڑ سکتے ہیں۔

بس آپ کو ہمیشہ چوکنا رہنا ہے۔ اپنے گھر کے مسائل دھیمی آواز میں بیان کرنے ہیں۔ ظاہر ہے جب آوازیں باہر تک جائیں گی تو دشمن خوشیاں ہی منائیں گے۔ اتنی سادہ بات جب میرے جیسی جاہل کو سمجھ آ گئی۔۔ تو ہمارے صاحب اقتدار، اشرافیہ تو عقل کل کہلاتے ہیں۔

ایک عام عوام کی حیثیت سے مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب کسی کا بھی کا نام لے کر سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی جاتی ہے۔ عدالت لگا کر سزا کا تعین اور مطالبہ کیا جاتا ہے اور قریبی دشمنوں کو خود پر ہنسنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

ایسی فرمائش کرنے والوں سے میری ہاتھ جوڑ کر ایک ہی استدعا ہے کہ خدارا پہلے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کا سوچیں۔ بجلی، گیس، اشیائے خوردونوش سستی کرنے کا سوچیں۔ خود کو نظام کے لیے نا گزیر مت سمجھیں۔ لوگ آتے جاتے ہیں۔ نظام چلتے رہتے ہیں اور سب سے اہم ملک اور نظام کا چلنا ہی ہے۔

ہر ادارے میں پرانے لوگ جاتے ہیں ان کی جگہ نئے لوگ لیتے ہیں۔ اگر نیا آنے والا پرانے کا احتساب شروع کردے تو کام کیسے چلے گا۔ پھر اداروں کا حال بھی وہی ہوگا جو پاکستان کی معیشت کا ہوا۔

پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر جو اٹھ رہی ہے۔ اس کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے ملک کو اپنی امان میں رکھے اور اشرافیہ کو عقل سلیم عطا فرمائے۔

Check Also

Waliullah Maroof, Hamara Muqami Hero

By Asif Mehmood