Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Riyasat Kab Kuch Kare Gi?

Riyasat Kab Kuch Kare Gi?

ریاست کب کچھ کرے گی؟

پاکستان شاید دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہے، جہاں ہر کامیاب شخص، ناکام یا جہدوجہد کرنے والے شخص پر تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور اسے جب بھی موقع ملے، وہ مجبور اور بے بس لوگوں کی اصلاح کرنا خود پر لازم سمجھتا ہے۔ مالی طور پر آسودہ اور فارغ البال افراد کے ہاتھوں بے بس اور مجبور لوگوں کو ذلیل کرنے کا لائسنس آجاتا ہے۔ کیوں کہ اس لائسنس کی فیس نہیں ہوتی، اس لیے اس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ ملک پچیس کروڑ کا ملک ہے۔ جس میں ایک بڑی تعداد جوانوں کی ہے۔ تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، تا کہ معاشی طور پر ان سے بہتر حالت میں آسکیں۔ یہ خواہش ہرگز ناجائز نہیں۔ والدین بچوں کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی بھیجنے کی پریکٹس کئی سال تک کرتے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں میں بھاری فیسز دیتے ہیں۔ اب کیا وہ بامقصد تعلیم کی ذمہ داری بھی اپنے سر لے لیں؟

ہم ہر وقت تنقید کرتے ہیں کہ الیکٹرکل انجینئر، سوئچ لگانا نہیں جانتا، ایم اے پاس سی وی نہیں لکھ سکتا، ہنر مند پلمبر نلکے فٹ کرنا نہیں جانتا۔ مانتی ہوں اس میں بہت حد تک سچائی ہے۔

مگر اس ہنر کو سکھانے کے ادارے کس نے بنانے تھے؟ تعلیم اگر بے مقصد ہے تو اسے بامقصد کس نے بنانا تھا؟ پچیس کروڑ عوام کو بامقصد کس نے بنانا ہے؟ سیدھا اور صاف جواب ہے کہ حکومت وقت نے۔۔ یہ کام اس گورنمنٹ کا ہے جو ہم سے پینے کے پانی سے لے کر سڑک پر پیدل چلنے کا بھی ٹیکس وصول کرتی ہے۔ جو سیاستدان ائیر کنڈیشنڈ اسمبلیوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں۔ شدید گرمی میں جہاں عام عوام کا سانس لینا محال ہے۔ پینٹ کوٹ ثائی پہن کر ہمارے سامنے ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ناشتے اور عشایئے پر مدعو کرتے ہیں۔

اپنے بچوں کی شادیوں پر اتنا اصراف کرتے ہیں کہ اس پیسے سے ہزاروں لوگوں کی قسمت بدل جائے۔ حکومت ہم پر کرتے ہیں جائیدادیں اغیار کے ممالک میں بناتے ہیں۔ کیا ان سیاستدانوں سے بھی کوئی یہ سوال کرے گا کہ یہ اپنی عوام کے ٹیکسز کا پیسہ کہاں خرچ کر رہے ہیں؟ پنجاب کا کیپٹل لاہور گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ مچھروں اور مکھیوں کی بہتات ہے۔ پینے کا پانی تک عوام خود خرید کر پیتے ہیں۔ کیا کسی سیاستدان نے یہ سوچا کہ گھر پر علاج کی سہولت دینے کے ساتھ ان بیماریوں کی وجہ بھی تلاش کر لی جائے۔ جس سے کینسر اور گردوں کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ عوام کو گھر کی دہلیز پر صاف پانی ہی فراہم کر دیا جائے۔

کمیکل زدہ دوھ سے نجات دلوا ددی جائے۔ ڈیری فارمز کی بہتات کر دی جائے تا کہ عوام کو سستا دودھ اور مکھن ہی مل جائے۔ پھر فرسٹریشن کیوں نا پیدا ہو؟ چیونٹی بھی ہاتھی کے پاؤں کے نیچے آنے پر اسے کاٹ لیتی ہے۔ تو مجبور اور مظلوم عوام کو کوئی بھی ملک دشمن اپنے کلٹ کا حصہ کیسے نا بنائے۔

ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرے۔ جب میڈیا اشرافیہ کے اس ذاتی عمل کی بھی تشہیر کرے گا تو کتنے بےکسوں کے دل میں ملال پیدا ہوگا۔ مانا کہ دولت کی تقسیم اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے۔ مگر پاکستان کے اشرافیہ عام عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کا تماشا تو نا بنائیں۔ لوگوں کے ذہن اور سوچ بدل چکے ہیں۔ عوام اشرافیہ کے لیے دل میں نفرت پال رہی ہے۔ اور اس نفرت کو پہلے عمران خان نے اپنے گھٹیا مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اب نا جانے کون کرے گا۔۔

صاحب اقتدار صرف چین کی بانسری بجاتے رہیں۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari