Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Qoul o Fel Mein Tazad

Qoul o Fel Mein Tazad

قول و قول میں تضاد

اورئینٹل کالج میں میری ایک بہت پیاری دوست عنائزہ بخاری تھی، یہ اردو کی لیکچرار بنی تھی۔ بہت زندہ دل، خوبصورت لڑکی تھی۔ عنائزہ ایک لفظ کا استعمال ہم سب پر بے دریغ کرتی تھی، وہ لفظ تھا، قول وقول میں تضاد۔ جہاں ہم میں سے کوئی اپنی بات سے پھرتا تھا۔ عنائزہ بڑے آرام سے کہتی تمہارے قول وقول میں تضاد ہے۔ ہم شرمندہ ہو کو ڈھیٹوں کی طرح ہنستے اور کہتے یہ تو لفظ اردو میں ہے ہی نہیں۔ ہم اسے نہیں مانتے۔

لیکن یقین جانئیے آج ان حالات میں یہ لفظ پاکستان کے سیاستدان اور اشرافیہ کا کلی طور پر احاطہ کرتا ہے۔ کیسے؟ کوئی نام لیے بغیر وضاحت دیتی ہوں۔ کیوں کی سمجھدار خود ہی سمجھ جائیں گے۔ خیال رہے یہ خیالات کا اظہار کسی ایک شخص کے بارے میں نہیں ہے۔

1- اندازہ کریں کہ ایک وقت تھا کہا جاتا تھا۔ گیم شروع کرنے سے پہلے مرضی کے رولز سیٹ ہوں گے۔ پھر سب باتیں گیم بنانے والے کی مانی گئیں۔ انقلابی روح کب مفاہمت کے سمندر میں ڈوبی پتا ہی نہی چلا۔

کہا گیا اہم عہدے سنیارٹی کی بنیاد پر خودبخود حقدار کو ملیں گے۔ پھر خود بغیر کسی عہدے کے تعیناتیاں کی گئیں۔

کبھی لاڈلا، اور ایک پیج کی تکرار، اب یک جاں دو قالب کا بیان۔

میرٹ کا قتل اقربا پروری نے کر دیا۔ ایکسٹینشن کے خلاف گفتگو کی گئی۔ پھر ایکسٹینشن دینے کے عمل میں حصہ لیا بلکہ اب بھی ایکسٹینشن کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔

جو جج یا عدالت حق میں فیصلہ دے وہ درست باقی سب غلط۔

2- عوام کو فلاحی ریاست مدینہ کے خواب دکھائے۔

اور معاشرے کا اخلاق برباد کرکے رکھ دیا۔ خود کبھی پرچون کی دکان بھی نہیں چلائی اور ایٹمی ریاست کو بام عروج پر پہنچانے کا دعویٰ کیا گیا۔ کرپشن فری ملک کے خواب دکھا کر، کرپشن کی بھرمار کر دی۔ سب کو جھوٹا کہہ کر خود جھوٹ کے ورلڈ ریکارڈ قائم کر دئیے۔ پہلے ایک پیج پر پھر میر جعفر اور میر صادق۔

قول و قول میں اتنا تضاد کہ پوری ایک کتاب ہی لکھی جائے۔ مگر یہ تضادات ختم نا ہوں۔

3- ملک کو ترقی کے خواب دکھا کر خود زیادہ وقت ملک سے باہر۔ دھائیوں سے صوبے پر حکومت، اور عوام کی حالت پسماندہ، کبھی حد سے زیادہ میچورٹی اور کبھی بچپنا۔

4- یہودی کے پیروکاروں کو اپنی امامت میں نمازِ پڑھا کر شاید مسلمان کرنے کی کوشش کی۔ کبھی ادھر تو کبھی ادھر۔۔ رب ہی جانے اصل میں ہے کدھر۔۔

5- سب سے مہنگی پڑھائی اور مہنگائی کے خلاف دھرنے، اجتجاج اور جلوس۔ اس تضاد کے کیا ہی کہنے۔

6- ساری زندگی کھالوں کی کمائی اور بھتہ خوری کی اور کہا ہم پورے ملک کو خیرات دیتے ہیں۔ قتل و غارت سے امن تباہ کرنے والوں کو ملک کی فکر۔

کیا اس ملک کے سیاست دان عام عوام کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ آخر آپ لوگوں کو عوام کا احساس کب ہوگا۔ آپ کے وعدے کب پورے ہوں گے؟ کبھی سوچا ہے باشعور عوام آپ کے بارےمیں کیا سوچتی ہے؟

سچ تو یہ ہے اقتدار کی دوڑ میں سب کی سیاست ایک جیسی ہے۔ سب مفادات کے کھیل اور انا کی جنگ ہے۔

درمیان میں جب وقفہ آتا ہے تو عام عوام کو خیرات کی صورت میں ریلیف کا لولی پاپ تھما دیا جاتا ہے۔ جو ڈسپوزیبل منصوبوں کی طرح جلد ہی ختم ہو جاتا ہے۔

التجا ہے کہ اپنے معاملات میں صرف رب تعالیٰ سے ڈر جائیں۔ کیوں کہ اس دن سیاست کام نہیں آئے گی۔ اپنی زبان اور الفاظ پر قائم رہنا سیکھیں۔ قول و قول کے تضاد کو ختم کریں۔ کیوں کہ ایسے لوگ منافق ہوتے ہیں اور دین اسلام میں منافقین کی سزا سب مسلمان جانتے ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali