Pakistani Siasat Ke Ghunde
پاکستانی سیاست کے غنڈے
دین اسلام میں عورت کو ایک اعلیٰ اور قابلِ احترام مقام دیا گیا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ ایک بہترین محبت کرنے والے شوہر، پیار کرنے والے باپ تھے۔ جنگ میں فتح حاصل کرنے کے باوجود آپ خواتین اور بچوں کو قتل سے منع فرماتے تھے۔ آپ نے اپنے امتیوں کو خواتین کے احترام کا درس دیا۔
مگر ہم لوگ کیا کر رہے ہیں؟ سوچنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پیارے ملک پاکستان کی سیاست کو دیکھ لیں۔ اس سیاست میں کچھ سیاست دان غنڈے بن کر حکمرانی کے مزے لیتے ہیں۔ یہ غنڈے کسی ایک جماعت میں نہیں، بلکہ ہر سیاسی جماعت میں موجود ہیں۔ یہ غنڈے زرا گھٹیا قسم کے بے غیرت غنڈے ہیں کیونکہ ان کی غنڈہ گردی سیاست میں موجود خواتین پر چلتی ہے۔ یہ مردوں کی بجائے خواتین کو نشانہ بناتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ان کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتی ہیں۔ اندازہ کریں ان غنڈوں کی مردانگی خواتین کی تذلیل کرنےکی محتاج ہے۔ میں تاریخ میں صرف وہاں تک جھانکوں گی جہاں تک میری آنکھوں اور ذہن نے یہ سفر کیا ہے۔
ایم کیو ایم جس کی غنڈہ گردی مشہور تھی۔ قتل وغارت تو کرتے ہی تھے۔ پنجاب میں آکر پنجاب کی عام خواتین کے بارے میں جو بدزبانی کی، وہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ الطاف حسین جیسے ذہنی مریض نے شیریں مزاری کے بارے میں جو نامناسب الفاظ بولے۔ اس کا جواب عمران خان نے جلسے میں خوب دیا۔ مگر وہی عمران خان اپنی بیٹی کے برابر خاتون مریم نواز شریف کے بارے میں جلسے میں جو بولا، وہ بھولتا نہیں۔
انہی مریم نواز شریف کے والد محترم نے بے نظیر بھٹو مرحومہ کو اسمبلی میں جو کہا وہ پیپلز پارٹی آج تک یاد دلاتی ہے اور اسی پیپلز پارٹی کی فوزیہ وہاب مرحومہ اور رانا ثناء اللہ ایک دوسرے کے بارےمیں کیا بیانات دیتے تھے، وہ بھی میڈیا پر نظر آتے تھے۔ خواجہ آصف نے اسمبلی فلور پر شیریں مزاری کے بارے میں جو کہا وہ پوری قوم نے دیکھا، بدلے میں اپنی اس بیٹی کی تضحیک تحریک انصاف کے ہاتھوں کروائی۔ جس کا قصور صرف ان کی بیٹی ہونا تھا۔
مولانا فضل الرحمان تحریک انصاف کی خاتون کارکنان کو چٹکیوں میں مسلنے کی دہمکی دیتے وقت اپنا وقار اور مقام فراموش کر گئے اور تحریک انصاف کی خواتین کارکنان اپنے جیسی دوسری جماعتوں کی خواتین کارکنان کے بارے میں زبان کے ایسے جوہر دکھاتی ہیں کہ ان کے عورت ہونے پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ فیک گندی ویڈیوز اور تصاویر کی تو بات ہی نا کریں۔ کیوں کہ اب یہ بالکل نارمل ہو چکا ہے۔
علی امین گنڈاپور خود کو ایک جری مرد سمجھتے ہیں۔ مگر نام نہاد مردانگی کا اظہار کرنے کے لئے انھیں ہمیشہ مریم نواز شریف کے بارے میں غلیظ گفتگو کی ضروت پڑتی ہے۔ بلکہ حالیہ جلسے میں انھوں نے خاتون صحافیوں کے بارےمیں جو الزام تراشی کی۔ اس کے بعد تو ان کی تربیت ہی مشکوک ہوگئی ہے۔
سب سے دلچسپ بات دیکھیں۔ یہ سب جماعتوں کے مرد نما غنڈے اپنی جماعت کی خواتین کو قابل عزت و احترام سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسری خواتین اس اعلیٰ مقام کی اہل نہیں ہیں۔ یعنی عورت کو پاکستانی معاشرے میں باہر نکل کر اپنی کوئی بھی صلاحیت دکھانے کے لیے، کسی سیاسی جماعت کو جوائن کرنا ضروری ہے۔ لیڈرز کی خوشامدی بننا ضروری ہے، تا کہ اسے سپورٹ مل سکے۔
کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ عام پاکستانی خواتین کی عزت کو کتنے لوگ مقدم جانتے ہیں؟
رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف، فیصل واوڈا، عمران خان کیا عام خواتین کی تذلیل پر بھی یوں چراغ پا ہوتے ہیں؟
بالکل بھی نہیں۔ کیوں پاکستان میں عام خواتین لاوارث اور سیاسی خواتین کے سب وارث ہیں۔
یاد رکھیں جو معاشرہ عورت کی تضحیک کرتا ہے۔ وہ کبھی صحت مند ذہن نہیں پیدا کرے گا۔ جو نسل پروان چڑھے گی، وہ ذہنی طور پر بیمار ہوگی اور بیمار ذہن کبھی ترقی کے عمل میں حصے دار نہیں بنتے۔ ہر عورت قابل احترام ہے۔ آپ اختلاف جی بھر کر کریں۔ مگر بدزبانی، ہراسگی کرتے وقت سوچ لیں۔ کہ کیا آپ کی مردانگی کو یہ زیب دیتا ہے؟