Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Pakistani Qaum Nakara Aur Maflooj Nahi

Pakistani Qaum Nakara Aur Maflooj Nahi

پاکستانی قوم ناکارہ اور مفلوج نہیں

پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے باوجود ہم ان سے متاثر ہیں۔ شاید دہائیوں کی غلامی کا اثر ہے، جو ہم ہر بات میں ان کی مثال دینا اور تقلید کرنا لازم سمجھتے ہیں۔ ہمارے دانشور، ادیب، صحافی اور اب تو لیڈرز بھی ان لوگوں سے شدید متاثر رہتے ہیں۔ ان کی زبان فخر سے بولتے ہیں۔ لباس میں تقلید کرکے خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ سمجھتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہم پسی ہوئی مجبور اور مظلوم قوم کی ہر وقت گوشمالی بھی کرتے رہتے ہیں کہ ہم ان کے جیسے کیوں نہیں ہیں؟ اپنی قومی زبان اردو اور قومی لباس شلوار قمیض پر شرمندہ رہتے ہیں۔

ہم فخر سے اغیار کی تہذیب کو دیکھتے ہیں۔ اس خاندانی نظام پر رشک کرتے ہیں۔ جہاں ماں باپ بچوں کی طرف سے کارڈ، پھول اور وزٹ کے لیے مدر ڈے یا فادر ڈے کا انتظار کرتے ہیں۔ جہاں ماں اپنی نیند قربان کرکے اولاد کو ناشتہ نہیں بنا کر دیتی۔ اپنی دعاؤں میں رخصت نہیں کرتی۔

جہاں باپ اپنے بچوں کے لاڈ نہیں اٹھاتا اور بلاوجہ اپنی مسکراہٹ بھی اولاد پر ضائع نہیں کرتا۔ جہاں بڑا بھائی، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے یہ پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ تمہارے ساتھ یہ لڑکا یا لڑکی کون ہے۔ جہاں بیمار ہونے پر ہسپتال پہنچایا جاتا ہے اور اس کے بعد صرف وزیٹر آرز میں پھول اور کارڈ لے جا کر صحت یابی کی وش کی جاتی ہے۔

دوسری طرف ہمارے خاندانی نظام کو دیکھ لیں جو اس کے بالکل الٹ ہے۔ ہمارے دلوں میں والدین کے حوالے سے خوف خدا ہے۔ ان سے محبت ہے، ان کی قدر ہے۔ سو فیصد درستگی کسی بھی معاشرے میں نہیں ہوتی اور یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ اللہ رب العزت نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف پیدا کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم پاکستانی محنتی بھی ہیں اور محبت کرنے والے بھی ہیں۔

الحمدللہ ہم جمائما گولڈ اسمتھ کے خاندانی نظام سے ہرگز متاثر نہیں۔ جہاں جمائما کے بوائے فرینڈز اس کے بیٹوں کو بائے کہہ کر پارٹی میں جاتے ہیں۔ جہاں ایک مسلمان باپ کے دو یہودی بیٹے اور ایک ناجائز عیسائی بیٹی اور ایک سابقہ یہودی ماں رہتی ہے۔ جن کا باپ جب پاکستان سے ملنے جاتا تھا تو اسی گھر میں رہائش رکھتا تھا۔ جو جیل میں مشقتی لیتا ہے، اور وہاں جا کو اپنے کام خود کرتا تھا۔ پھر فخر سے صحافیوں کو بتاتا بھی تھا۔

ہمیں تو اپنے بھائی بہنوں پر فخر ہے۔ جو محبت میں ہمارے چھوٹے موٹے کام کر دیتے ہیں۔ ہم تو ثواب کی نیت سے ایک دوسرے کو پانی پلاتے ہیں۔ ماں کے ہاتھ کا پراٹھا کھا کر جب اپنی ماں کی تعریف کرتے ہوئے ان کا منہ چومتے ہیں۔ تو ہماری ماؤں کے چہروں کی دلکش مسکراہٹ انمول ہے۔ ہم محنت کرکے خود روکھی سوکھی کھاتے ہیں۔ مگر اپنے صاحب اقتدار کو، ان کی نسلوں کو ٹیکسز کی صورت میں پالتے ہیں۔

میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر پاکستانی معاشرہ اور لوگ اتنے برے ہیں۔ تو اشرافیہ یہاں کیوں رہتے ہیں؟ اغیار کے ملک میں دوسرے درجے کے شہری بن کر کیوں نہیں رہتے؟

عزت، دولت، شہرت، اقتدار کے مزے پاکستان کے، اور تعریفیں اغیار کی۔۔

واہ کیا منافقت ہے۔

Check Also

Mera Gaun

By Muhammad Umair Haidry