Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Mohsin Kush

Mohsin Kush

محسن کش‎

10 اکتوبر کا دن متضاد کیفیات کا دن تھا۔ سعودی وفد کی آمد، اور بہت عرصے بعد سرمایہ کاری کے معاہدوں کی دلنشین آواز نے کانوں میں ایسا رس گھولا کے بے اختیار زیر لب الحمدللہ بولا۔ بار بار اس لفظ کی تکرار کی کہ پاکستان کے حکمرانوں نے بھی کام کرنے کی ٹھان لی۔

دوسری خوشی کی خبر آئی پیز کے معاہدوں کی منسوخی کی تھی۔ کم از کم پانچ لوگوں کو تو پاکستانی عوام کی حالت زار پر ترس آیا۔ یا شاید دلایا گیا۔ جو ہوا سو ہوا، فائدہ عوام کو ہی ملے گا۔ انشاء اللہ۔ پاکستان ٹریک پر چڑھ گیا۔ اب قوی امید ہے کہ آہستہ آہستہ گاڑی اسپیڈ پکڑ لے گی۔

ہم عام عوام زیادہ خوش ہونے کے عادی نہیں رہے۔ کلٹ کے سربراہ اور پیروکاروں نے ملک کے حالات پچھلے کچھ سالوں سے اس طرح رکھے کہ ذہنی، معاشی، اخلاقی پریشانیوں نے خوش ہونے کی خوشی بھی عام عوام سے چھین لی۔

اسی لیے ہم ہر خوشی کی خبر کے بعد اداس کرنے والی خبر بھی تلاش کر ہی لیتے ہیں تا کہ زیادہ خوشی سے ہماری طبیعت نا ساز نا ہو جائے اور اسی بہانے اداس ہونے کا موقع بھی مل جائے۔

10 اکتوبر کی اداس کر دینے والی خبر ڈاکٹر عبد القدیر کی برسی کی خبر تھی۔ جو اتنی غیر اہم تھی کہ کسی ہیڈ لائینز میں بھی جگہ نا پا سکی۔ ڈاکٹر عبد القدیر ایٹمی سائنسدان جسے نواز شریف صدر پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ کم از کم نواز شریف اور باقی سیاست دانوں کے چند جملوں کے مستحق تو تھے یا ایک ہیڈ لائن ہی مل جاتی۔

دنیا سے جانے والوں کا تعلق اس فانی دنیا سے ختم ہو جاتا ہے۔ ان کے معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد ہو جاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھٹو مرحوم کے پھانسی کے فیصلے کو عدالت سے غلط ثابت کروا کر پارلیمنٹ میں قرارداد منظور کرواتی ہیں۔ مشرف مرحوم کو قبر سے نکال کر پھانسی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ مگر جس بندے نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنایا۔ اس کی برسی پر یادگاری جملے بھی ادا نہیں کرتیں۔

کیا کریں اس ملک کے طول و عرض میں آئینی ترمیم کا مسئلہ پوری شدومد سے پھیلا ہوا ہے۔ سارے پاکستان کے سیاست دان مل کر ابھی تک ایک آئینی ترمیم پاس نا کروا سکے۔ یا شاید کروانا ہی نہی چاہتے۔

دوسری جانب کلٹ کے پیروکار اپنے تماشوں میں مصروف ہیں۔ ان کے لیے ملک نہیں بلکہ اڈیالہ کا مکین اہم ہے۔ جس کی رہائی کے بعد پاکستان کا کوڑا بھی سونا بن جائے گا۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگے گی۔ اسی لیے وہ اڈیالہ کی دیواروں کو توڑ کر امت مسلمہ کے نام نہاد لیڈر کو باہر نکالنا چاہتے ہیں تو ایسے میں محسن پاکستان کی برسی کسے یاد رہے گی؟

ہم ایسے ہی محسن کش لوگ ہیں۔ ہم چڑھتے سورج کے پجاری لوگ ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ عامر لیاقت، عاصمہ جہانگیر، ارشد شریف، مشاہد اللہ، نعیم الحق، ایدھی صاحب سمیت بہت سے لوگ جو کہ اپنی زندگیوں میں میڈیا اور دوسرے لوگوں کے لیے ناگزیر تھے۔ آج ان کو کوئی یاد بھی نہیں کرتا۔ آنکھ اوجھل اور سمجھیں پہاڑ اوجھل۔

ہم عام عوام کا بھی یہی چلن ہے۔ ہم عامر لیاقت کو اس کی زندگی میں میڈیا کے لیے ناگزیر بنا دیتے ہیں اور اس کے مرنے کے بعد، دانیہ شاہ اور اس کی شادی اہم بن جاتی ہے۔ اسی بات سے مجھ سمیت تمام عوام کو اپنی ذہنی پرواز کا اندازہ لگانا چاہیے۔

بہرحال لوگ آتے اور جاتے ہیں۔ کائنات کا نظام اللہ رب العزت کسی شخص کے لیے نہیں روکتا۔ یہ چلتا رہتا ہے اور یہ ایک مسلم حقیقت ہے، لیکن اپنے ہیروز کو یاد کرنے کے عمل کو نہیں بھولنا چاہیے۔ یہ عمل قوم کی ترجیحات بتاتا ہے۔ تاریخ بناتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ہم محسن کش قوم نہیں۔ ہم احسان فراموش نہیں۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad