Makafat e Amal
مکافات عمل
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا کی ہوئی ہر نعمت انسان کے لیے ایک احسان عظیم ہے۔ ایسا احسان عظیم جو رب تعالیٰ نے اپنی کائنات کے ہر بندے پر کیا ہے۔ چاہے وہ فرمانبردار ہو نا فرمان ہو، اللہ کے پسندیدہ دین پر چلنے والا مسلمان ہو یا دنیاوی مذہب کا پیروکار ہو۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بارش سب پر یکساں ہوتی ہے۔ کیوں کہ ان نعمتوں کا حساب میرے رب نے روز آخرت پر چھوڑ دیا ہے۔ مگر کچھ حساب دنیا میں ہی ہو جاتے ہیں اور اللہ کی اس نعمت جس کے سبب یہ حساب دنیا میں ہوتے ہیں، مکافات عمل کہلاتی ہے۔
میں جب بھی مکافات عمل کے بارے میں سوچتی ہوں۔ دل اپنے عظیم رب کی محبت سے مزید لبریز ہو جاتا ہے۔ سکون کی لہریں دل ودماغ میں رواں ہو جاتی ہیں۔ آپ اندازہ کریں۔ ایک شخص جس کے پاس بے بہا دولت نا ہو، طاقت نا ہو، شہرت کی دیوی مہربان نا ہو۔ اس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں۔ تو وہ کس سے گلہ کرے، کس کا در کھٹکھٹائے۔
یقیناَ اس مظلوم کے پاس اپنے رب کے حضور گلہ اور دعا کرنے کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں۔ اس کے آنسو دیکھنے والا صرف خالق و مالک ہے۔ پھر رحمت جوش میں آتی ہے اور مکافات عمل شروع ہو جاتا ہے۔
فرشتے وکیل بن کر رب تعالیٰ کے حضور۔ مقدمہ پیش کرتے ہیں اور جج بالکل نیوٹرل ہے۔ اور فیصلہ سنا دیا جاتا ہے کہ مکافات عمل کی سزا دی جاتی ہے۔ فرشتے رب تعالیٰ کے حکم پر سر جھکاتے ہیں۔ دنیا میں آکر مکافات عمل کے فیصلے کو لاگو کرنے کا کام شروع کرتے ہیں۔ مظلوم کے دل کو سکنیت عطا کر دی جاتی ہے۔ اور ظالم کی سزا شروع ہو جاتی ہے۔
اختیار کا مالک ہونے کے باوجود ظالم لاچار اور بے بس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ دولت کے انبار ہیں مگر خرچ نہیں کر سکتا۔ شہرت بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ مگر لوگوں کے دلوں میں نفرت ہے۔ ذہن ایسا مفلوج ہو جاتا ہے کہ اپنے مظالم پر دھیان نہیں جاتا بلکہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
ظالم چیختا چلاتا اور ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ مگر بے بس ہے کیوں کہ مکافات عمل شروع ہوچکا ہے اور یہ کام انجام تک پہنچ کر ہی رہے گا۔
یہ سب جاننے کے باوجود ہم لوگ دولت، شہرت اور طاقت کو آزمائش کی بجائے انعام کیوں سمجھ رہے ہوتے ہیں؟ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے؟
سیدھا سا جواب ہے، آنکھوں پر غفلت کی پٹی بندھ جاتی ہے، اور انسان اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ جاتا ہے۔ ہم مکافات عمل کو بھول جاتے ہیں اور جب اس کا شکار ہوتے ہیں۔ تب بھی اس سزا کو سمجھتے نہیں۔
قرآن کریم کی سورہ یاسین میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " کیا انسان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے؟ پھر یکایک وہ صریح جھگڑالو بن گیا۔ اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی اور اپنی(اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے"۔
بس جب انسان زمینی خدا بنتا ہے تو آسمانی خدا مکافات عمل کے زریعے بتاتا ہے کہ میں موجود ہوں۔ اس لیے مجھے تو دنیا کی خوبصورت ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت مکافات عمل لگتی ہے۔ جو اللہ نے اپنے فضل کی صورت میں مظلوموں کے لیے دنیا میں اتاری ہے۔
گردنوں میں سریا ڈالنے والے یہ خیال رکھیں کہ مکافات عمل بھی ہوگا اور پکڑ بھی ہوگی۔ کسی کے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچنے والے دھیان رکھیں۔ کہ زمین کا مالک رب تعالیٰ ہے۔ آپ نہیں۔
پاکستان کے صاحب اقتدار اور ننھے منے زمینی خداؤں کو جس دن یہ بات سمجھنے آ گئی اس دن اس ملک کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکے گا۔