Tuesday, 01 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Learning And Practice

Learning And Practice

لرننگ اینڈ پریکٹس‎

پیارا پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جس میں کوئی بھی فرد، کسی بھی شعبے میں کامیابی صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر حاصل نہیں کرتا۔ اسے کامیابی ملنے میں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ جیسے، وراثت، سفارش، اقربا پروری، باہمی مفادات وغیرہ۔

اہلیت اور محنت کافی بعد میں آتے ہیں۔ درج بالا عوامل کامیابی کو پہلے ہی اچک لیتے ہیں۔

یہاں تک تو سب قابل برداشت ہے۔ دکھ اور افسوس کا دورانیہ تب شروع ہوتا ہے، جب کامیاب لوگوں کے پاس دوسروں کا نیچا دکھانے کا لائسنس آجاتا ہے۔

میں نے دیکھا ہے پیارے ملک پاکستان میں، اس شخص کو وزیراعظم بنتے ہوئے جسے یہ بھی معلوم نا تھا کہ انگریزی لکھتے وقت جملے کا پہلا لفظ کیپیٹل ہوتا ہے۔ میں نے وہ وزیر اعلیٰ بھی دیکھا۔ جو سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا اور کرونا کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے وہ بھی وزیر اعلیٰ دیکھا۔ جس نے اپنے صوبے کی آبادی، وقت کے وزیر اعظم کے سامنے غلط بتائی۔ وہ وزیر اعلیٰ بھی دیکھا جو ہر وقت لڑکھڑا جاتا تھا۔ وجہ سب سمجھ گئے ہوں گے۔ وہ وزیر اعلیٰ بھی دیکھا جو اپنی شہد کی بوتل ہاتھ میں پکڑے بھاگ رہا تھا اور وہ وزیر اعلیٰ بھی نظر آیا جو اپنی ننھی سی جان کو بمشکل سنبھالے جلسے میں اعضا کی شاعری کر رہا تھا۔

پھر میں نے وہ وزیر اعلیٰ بھی دیکھی جس سے قومی زبان میں پیغام نا لکھا گیا۔ میں نے وہ اسپیکر اسمبلی بھی دیکھا، جس نے کہا کہ اگر میں اسمبلی میں موجود افراد کی آڈیو شئیر کر دوں تو یہ لوگ عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس صدر کے بارے میں بھی سنا جس کے بارے میں مشہورِ ہوا کہ اس کی اہلیت اپنے لیڈر کو دہی بھلے کی پلیٹ بنا کر دینا تھا اور اس خدمت کے عوض اسے صدر پاکستان کا عہدہ بخش دیا گیا اور وہ صدر بھی دیکھا جس کا کام صرف اپنی سیاسی جماعت کی سپورٹ تھا۔ اب مراعات سے لطف اٹھا رہا ہے اور اپنا کاروبار بھی چلا رہا ہے۔

وہ وزیر اعظم بھی دیکھا جو اردو حلف نا پڑھ سکا۔ ایسے حکمران تو بے تحاشا گزرے۔ جو قبر کے دہانے پر بیٹھے تھے اور ہیں۔ مگر جگہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔

جعلی ڈگری پر جیتنے والا وہ وزیر بھی نظر سے گزرا، جسے بہترین وزیر کا میڈل ملا اور ابھی تک اس کی روپوشی معمہ بنی ہوئی ہے۔ جعلی ڈگریوں والے بھی بے شمار ہیں۔ بیان کرنے کو ہزارہا مثالیں ہیں۔

ان سب کی کیا لرننگ تھی اور کیا پریکٹس تھی؟ اس سوال کا جواب کون دے گا؟

صحافت کے شعبے کو دیکھ لیں۔ نام نہیں لینا چاہتی۔ بہت سے نامور صحافی جن کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی۔ باخبر زرائع کی بدولت ہمارے سروں پر ناچتے رہے۔

ان کی لرننگ اور پریکٹس پر کوئی سوال کرے گا؟

کیا وزیر تعلیم چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی، کبھی کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں تدریس یا انتظامی امور کو سیکھ کر آیا ہے؟

ان کی لرننگ اور پریکٹس کیا ہے؟ اکثر خیال آتا ہے۔

صدر سے لے کر آخری وزیر تک چھانٹی شروع کر دیں۔ نصف سے زائد کی لرننگ اور پریکٹس مشکوک ہو جائے گی۔

سیاست دانوں کی اولادیں دیکھ لیں۔ عہدوں پر براجمان ہیں۔ مگر لرننگ پریکٹس اس کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ کرسی پر بیٹھنے سے قبل ان کے پاس صرف وراثت کی خوش قسمتی کے علاؤہ کچھ نہیں ہوتا۔

ہر شعبے پر دھیان دیتے جائیں۔ آپ لرننگ اور پریکٹس کے گورکھ دھندے میں الجھتے جائیں گے۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں تنقید کرنا سب سے آسان کام ہے اور دوسروں کے لیے مثبت سوچنا سب سے مشکل ہے۔

اندازہ کریں ہمارے اشرافیہ جو خود سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ اس سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ دوسروں کی اہلیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ فرماتے ہیں سوشل میڈیا کا کوئی سر پیر نہیں۔ اس کی کوئی اہلیت نہیں۔

تو آپ خود کیوں یوٹیوب چینلز بنا کر لرننگ اور پریکٹس کر رہے ہیں؟

کوئی جواب نہیں دیتا۔

مجھے تو پورے پاکستان میں کوئی شخص لرننگ اور پریکٹس کرنے کے بعد نارمل نظر نہیں آیا۔ ایسے لوگ ایک بلا بن جاتے ہیں۔ یہ ایک ایک سیڑھی چڑھ کر منزل تک پہنچتے ہیں اور اس بات کا بدلہ ساری زندگی دوسروں سے لیتے ہیں۔ ان کے اندر صرف منافقت اور ان کے قول و فعل میں تضاد ہے۔

اللہ تعالیٰ ہی ایسے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے۔

Check Also

Kharmang Ke Aasar e Qadeema (2)

By Mumtaz Hussain