Khareedi Hui Muhabbat
خریدی ہوئی محبت
پاکستان انڈیا سے میچ ہار گیا، اگرچے نا میں کرکٹ میچ دیکھتی ہوں اور کرکٹ کو کچھ خاص پسند بھی نہیں کرتی۔ پھر بھی یہ جملہ جب جب سننے کو ملا، افسوس ہوا۔ لیکن ہر کھیل میں ہار اور جیت تو ہوتی ہی ہے اور سب ٹیمیں جیت کی آرزو لے کر ہی میدان میں اترتی ہیں۔ جو محنت کرے گا، رب تعالیٰ فتح بھی اسے ہی نصیب فرمائیں گے۔
اس میچ کی ایک اور دلچسپ بات تھی، ایک ویڈیو نظر سے گزری۔ دیکھا کہ اس میچ کے دوران ایک صاحب خوشگوار موڈ میں آسمان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور جہاز کے ساتھ اڑنے والے بینر پر لکھا ہے۔ ترجمہ، عمران خان کو رہا کرو۔ یقین مانیئے بے اختیار ہنسی آ گئی، وجہ سابقہ سیاسی جماعت تحریک انصاف کے پیروکاروں کی معصومیت تھی۔
میں اس جماعت کے رہنماؤں کی سوچ پر حیران ہوں کہ اتنی ٹھوکریں کھا کر، اپنے عہدے اور عزت گنوا کر بھی انھیں عقل نا آئی۔ یعنی ایک شخص پر مقدمہ پاکستان میں چل رہا ہے۔ جیل بلکہ کہنا چاہیے پرتعیش جیل وہ پاکستان میں کاٹ رہا ہے اور آپ احتجاج امریک کے کھیل کے میدان میں کر رہے ہیں اور احتجاج بھی ایسا جو کہ ادائیگی کے بعد کیا جاتا ہے۔
فرض کریں میں امریکہ کی کسی پبلسٹی فرم کو لاکھوں ڈالر دے کر ہائر کروں (دھیان رہے یہ صرف فرض کیا جا رہا ہے)، اس کے بعد کرکٹ کا فائنل میچ ہو اور جہاز کے ساتھ ایک بینر لہرائے، جس پر لکھا ہو پی ایم سائرہ کنول، تو کیا میں پرائم منسٹر بن گئی؟ یہ تو کسی بچے کو بھی سمجھ آ جائے کہ پیسے دے کر یہ کام کروایا گیا ہے۔
اسی طرح کسی کو عمرے یا حج پر پیسے دے کر بھیجا جائے اور کہا جائے کہ فلاں مقدس مقام پر تحریک انصاف کا جھنڈا لہرانا اور ویڈیو بنا لینا۔ تو یہ کون سا مشکل کام ہے؟ یہ تو کوئی بھی سیاسی پارٹی پیسے دے کر کروا سکتی ہے۔
کیا اس سے پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ یا عمران خان کو بغیر سزا اور عدالتی کارروائی کے پھولوں کے ہار پہنا کر وزیراعظم ہاؤس میں پہنچا دیا جائے گا۔ کیسا بیوقوفانہ خیال ہے۔ عمران خان کی جیل کی تصاویر شئیر ہو جائیں، ان کی آڈیو لیک ہو جائے، تو اس سے کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ افسوس ایک لیڈر کو خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کے لیے کن کن ہتھیاروں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
ہم پنجابی ایک جملہ بولتے ہیں۔ یہ بندہ ہوشیار نہیں ڈیڑھ ہو شیار ہے۔
آج مجھے یہ جملہ عمران خان کے لیے یاد آرہا ہے۔ عمران خان نے اقتدار حاصل کرنے کو ایک گیم کی طرح سمجھا اور اسے اعصاب کی جنگ بنا لیا۔ جو ہارا وہ میدان سے باہر اور جو جیتا اقتدار کی کرسی اس کے لیے حاضر۔
آج سے چند سال پہلے تک شاید یہ ٹرکس چل پڑتے، مگر اب نہیں۔ عوام باشعور ہو چکی ہے۔ آپ اپنے برگر بچوں کو ان باتوں سے متاثر کر سکتے ہیں۔ مگر پاکستان کے گلی محلوں میں رہنے والی عوام کو آپ کی ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مڈل کلاس نوجوان نسل آپ کے ان ہتھکنڈوں میں نہیں آنے والی۔ اصل پاکستانی یہ ہیں۔ عمران خان آپ نے اپنے سابقہ دور اقتدار میں اگر اس طبقے کو ریلیف دیا ہوتا، ان پر توجہ کی ہوتی تو آج آپ کو یہ محبت خریدنی نا پڑتی۔ ذوالفقار بھٹو نے یہ محبت خریدی نہیں تھی۔ اسی لیے آج تک عوام ان کی تیسری نسل سے بھی محبت کرتی ہے۔ بلاول اور آصفہ بھٹو کو یہ بے لوث محبت مل رہی ہے۔
نواز شریف، شہباز شریف نے اپنی پبلسٹی کے لیے لاکھوں ڈالر میں فرمز ہائر نہیں کیں۔ عوام کے لیے کام کیا اور اس کا فائدہ مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف اٹھا رہے ہیں۔ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ یاد رکھیں محبت خریدی نہیں جاتی اور جو خریدی جاسکے، پھر وہ محبت بے لوث نہیں ہوتی۔ جب پیمنٹ بند ہوتی ہے تو محبت بھی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
عمران خان آپ کتنا عرصہ اپنی شخصیت کا جادو چلاتے رہیں گے؟ بالوں کو رنگ کر، ایکسرسائز کرکے، اچھی خوراک کا استعمال کرکے کب تک گزرتے وقت کو روک پائیں گے؟ کم سن نوجوان لڑکے لڑکیوں کے منہ سے عمران خان سن کر خود کو نوجوان اور کھلنڈرا محسوس کرنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو جائے گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اس عمر کے اس دور میں ہے جب کبھی بھی اللہ رب العزت کی طرف سے بلاوا آسکتا ہے۔
کوئی آپ کو زہر نہیں دے گا ہو سکتا ہے پھانسی بھی نا ملے، مگر طبعی عمر پورا کرکے ہر ایک نے جانا ہی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ اپنی متوقع طبعی موت کا الزام دوسروں ہر لگا کر آپ ہمیشگی چاہتے ہیں، جو کہ ممکن نہیں۔
یہ سب باتیں ایک طرف پتا تو چلے کہ آپ نے اغیار سے کون سے وعدے کیے ہیں؟ جو وہ آپ کی رہائی کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کرنے پر تیار ہیں۔ آپ کی بغیر سوچے سمجھے بولنے، اور بے تکان بولنے کی عادت سے کون فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
ایک ایٹمی ملک کے سابقہ حکمران کو اپنے پاس بلانے کی چاہت کس ملک کی ہے؟
ہم عام عوام تو یہ سوچ رہے ہیں۔ کوئی ان سوالوں کے جواب دے پائے گا؟