Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Karvi Aapa

Karvi Aapa

کڑوی آپا

کل اپنے بے حد پسندیدہ کالم نگار جاوید چوہدری صاحب کا ایک کالم پڑھا جو انھوں نے اپنے ایک قریبی دوست کے متعلق لکھا تھا۔ بے حد دلچسپ کالم تھا۔ جاوید چوہدری صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ہم لوگوں کی تربیت کی کوشش کی اور بتایا کہ مہمانوں کو کس طرح ڈیل کیا جاتا ہے۔ پورا واقعہ تو آپ ان کے کالم میں ہی پڑھیں۔ مختصر یہ کہ انھوں نے اپنے دوست کا نام مٹھائی بھائی جان رکھا۔

کیوں بہت سے لوگوں کی طرح میں جاوید چوہدری صاحب کی باتوں کو عملی زندگی میں بھی اپناتی ہوں۔ مگر ہر مرتبہ نتیجہ ویسا نہیں نکلتا جیسا بیان کیا جاتا ہے۔

خیر میرا دل چاہا کہ میں بھی اپنا تجربہ اپنے قارئین سے شئیر کروں۔ اور انھیں بتاؤں کے مہنگائی نے مڈل کلاس کے حالات کیسے کر دیئے ہیں۔

میرا اپنے سسرال میں ایک خاتون کے گھر جانا ہوا۔ میں نے سوچا کہ اخلاق کا تقاضا ہےکہ پہلے فون کرکے بتا دیا جائے۔ شوہر نے فون کرکے بتایا کہ ہم آج شام آپ کی طرف آرہے ہیں۔

ہم شام کو جب ان کی طرف گئے تو وہ کچھ اکتائی محسوس ہوئیں۔ میں نے آئسکریم کا ڈبہ ان کے ہاتھ میں پکڑایا۔ کیونکہ پورے خاندان کو کہا گیا ہے کہ میرے گھر آسکریم اور فروٹ کے علاؤہ کچھ نا لایا جائے۔ انھوں نے بے اعتنائی سے اپنا حق سمجھ کر آئسکریم کا ڈبہ وصول کیا اور اخلاقاً بھی شکریے کا تکلف نہیں کیا۔ بچے تو کولڈ ڈرنک پیتے نہیں تھے۔ ہم دونوں کو انتہائی مختصر حجم والے گلاس میں کولڈ ڈرنک سرو بلکہ کہنا چاہیے میز پر لا کر پٹخ دیا گیا۔ شوہر آپا کے شوہر کے ساتھ باتوں میں مصروف اور میں سوچ رہی کہ آج یہ میرے ہاتھوں سے کیسے بچیں گے؟ شوہر کی ایک انتہائی عمدہ عادت ہے اپنے کسی بھی رشتے دار کے گھر جا کر جلدی نظر نہیں ملاتے، جانتے ہیں کہ آنکھوں سے نکلے شرارے خاکستر کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔

خیر آدھے گھنٹے کے بعد جب اٹھنے لگے تو آپا بولیں۔ کھانا کھا کر جانا میں نے بنایا ہے۔ میں نے آنکھوں کے زریعے پیغام رسانی کی بھرپور کوشش کی مگر شوہر تسلی سے بیٹھ گئے کیوں کہ آپا کو ماں کے برابر کا درجہ حاصل ہے۔

میں بھی بیٹھ گئی اور اخلاقاً بولی آپ کو زحمت ہوگی۔ گھر والی بات تھی۔ جواب آیا اب جب فون کر دیا تھا تو کھانا تو بنانا ہی تھا۔ میں نے فوراََ وضاحت کی دراصل فون اس لئے کیا تھا کہ شاید آپ گھر میں ناہو۔

لو میں نے کہا جانا تھا۔ میں تو گھر میں ہی رہتی ہوں۔ آگے سے کرارا جواب آیا۔

خیر کھانا میز پر لا کر رکھا گیا اور انداز یوں تھا لو کھاؤ مرو۔

اور خود سامنے بیٹھ کر گھورنا شروع کر دیا۔ آپا آپ بھی لیں نا۔ میں نے پھر ہمت پکڑی اور آپا کو شریک طعام کی دعوت دی۔ نہیں مجھے تو تیزابیت سی محسوس ہو رہی ہے آج کھانا نہیں کھاؤ گی، دودھ پی لوں گی۔ آپا نےجواب دے کر پلیٹ کی طرف گھورنا شروع کر دیا۔ ایسی خونخوار نظریں کہ پلیٹ میں کچھ ڈالتے ہوئے ہاتھ ہی کانپ جائیں۔ اور منہ سے بولیں ڈالو نا۔ خالی پلیٹ لے کر کیوں بیٹھی ہو؟

میں نے تھوڑی سی گریوی ڈال کر بچوں کے منہ میں نوالے ڈالنا شروع کر دئیے۔ آپا نے میرے اس عمل کو دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا اور مجھ سے باتیں کرنا شروع کر دیں کہ کہیں غلطی سے بچوں کی بجائے اپنے منہ میں نوالہ نا ڈال لوں۔

آپا کی بہو اندر آئی اور اخلاق دکھاتے ہوئے بولی آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں ساتھ ہی ایک ڈبہ لے کر آئی اور بولی میں آپ کو کھانا دیتی ہوں گھر جا کر کھا لیجئے گا (کیونکہ وہ جب بھی میرے گھر آتی تھی میں آپا کا کھانا بھجواتی تھی)۔

آپا کی آنکھوں سے نکلتے شرارے دیکھ کر میں نے جلدی سے کہا نہیں۔ مجھے کہیں اور بھی جانا ہے۔ میں نہیں لیجاسکتی۔ آپا نے اطمینان کا سانس لیا۔ اور ایسے بیٹھ گئیں کہ اب کھانا کھا لیا ہےتو جاؤ، کہیں چائے پینے کا ارادہ تو نہیں۔

شوہر سے کہا چلیں تو بولے بس پانچ منٹ ٹھرو۔ اب یہ وقت گزارنے کے لیے اخلاق دکھاتے ہوئے آپا سے کہا کھانا بے حد مزے کا تھا۔ آپا شان بے نیازی سے بولیں سبھی جانتے ہیں میرے ہاتھ میں کتنا ذائقہ ہے۔ ہم اور لوگوں کی طرح جان تھوڑی چھڑاتے ہیں۔ پوری توجہ سے ہنڈیا پکاتے ہیں۔ اندازِ ایسا تھا کہ میں شرمندہ ہی ہوگی۔ کیوں کہ جلد کوکنگ کرنے پر سسرال سے کافی باتیں سن چکی تھی کہ کوکنگ سے جان چھڑواتی ہے۔

اللہ اللہ کرکے شوہر اٹھے۔ آپا نے بے حد محبت سے ساتھ لگا کر پیار کیا اور بولیں بڑی خوشی ہوئی تم آئے۔ میں چکر لگاؤں گی تمہاری طرف، بہو سے بولیں جاؤ دروازے تک چھوڑ آؤ۔۔ شاید انھیں خدشہ تھا کہ کہیں واپس ہی نا پلٹ جائیں۔

اب آپ لوگ فیصلہ کریں کہ حقیقت کیا ہے۔ وہ جو جاوید چوہدری صاحب نےسمجھائی یا وہ جو میں نے بھگتی۔

مسئلہ یہ ہے کہ زمینی حقائق بہت مختلف ہو چکے ہیں۔ مہنگائی نے سب کی جان عزاب میں ڈال دی ہے۔ لوگ اخلاقاً بھی کسی کو چائے کا نہیں پوچھتے۔ مڈل کلاس لوئر مڈل کلاس میں بدل چکی ہے۔ مہنگائی نے اخلاقی اقدار کو کک کروا دیا ہوا ہے اوراس بات کا سہرا بھی ہمارے پیارے صاحب اقتدار کے سر ہی جاتا ہے۔

مجھے تو لگتا ہے مٹھائی بھائی جان ایک فسانہ اور کڑوی آپا ایک حقیقت ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟

Check Also

Waliullah Maroof, Hamara Muqami Hero

By Asif Mehmood