Kal Ki Fikr Chor Dain
کل کی فکر چھوڈ دیں
دنیا مصائب کا گھر ہے۔ اپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اپ کو ہر شخص کی آنکھ میں آنسو اور ہر گھر میں ہنگامہ نظر آئے گا۔ ہم ہر وقت اپنے خالق سے گلہ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ اس معاملے میں سب منافق ہیں۔ ہماری زبان کہتی ہے اللہ کا شکر ہے۔ مگر دل کہتا ہے یا اللہ میری ہی آزمائش کیوں لی گئی؟ کیا تھا میری ہر خواہش پوری ہو جاتی۔ میں ہی کیوں بیمار ہوا؟ میرے پاس فلاں کے جتنی دولت کیوں نہیں؟ میری اولاد فرماں بردار کیوں نہیں نکلی؟ میں نے بہت سے پڑھے لکھے اور کامیاب لوگوں کو اللہ سے یہ شکوہ کرتے سنا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم قناعت پسند ہیں اور نا ہی شکر گزار بندے ہیں۔ ہم ایک لاکھ سے دس لاکھ، دس لاکھ سے ایک کروڑ کی دوڑ میں تھکتے رہتے ہیں۔ اور آخر میں سفید لباس پہن کر مٹی میں جا لیٹتے ہیں۔
دین اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں اور ناہی بذاتِ خود میں اس کی قائل ہوں۔ دنیا کی نعمتوں سے لطف اٹھانا سب کا حق ہے۔ ہم دور جدید میں پیدا ہوئے ہیں۔ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے کمرے ہمیں میسر ہیں۔ اچھی خوراک، اچھا لباس ہمیں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مل ہی جاتا ہے۔ موبائل کی صورت میں دنیا سمٹ کر ہمارے ہاتھ میں آچکی ہے۔ پھر بھی ہم لوگوں کے چہرے اداس ہیں۔ عجیب غم کی کیفیت ہے۔ ہر شخص دوسرے کو حسرت سے دیکھتا ہے۔ چہرے پر سوچوں کی سلوٹیں ہیں۔
آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ بہت ساری وجوہات ذہن میں آئیں مگر سب سے مضبوط وجہ یہ لگی۔۔ کل کی فکر۔۔
ہماری نظر آج پر نہیں کل پر ہے۔ اگر سوچیں کہ مجھے صرف آج کا دن ملا ہے کل کیا ہوگا معلوم نہیں، تو ہماری زندگی ماضی کی شکائتوں اور مستقبل کی فکروں سے آزاد ہو جائے گی۔ ہماری عبادت خشوع و خضوع والی ہو جائے گی۔ دوسروں سے حسد اور گلہ ختم ہو جائے گا۔ آپ کو کھانا لزیز لگے گا۔ پانی میٹھا لگے گا۔ خاندان کے افراد کو پیار ومحبت سے دیکھیں گے۔
ہو سکتا ہے بہت سے لوگوں کو میری اس بات سے اختلاف ہو مگر میں یہی کہوں گی۔ گزرے ہوئے اور آنے والے کل کی فکر چھوڈ دیں۔ اولاد کی بہترین تربیت کریں ان کے مستقبل کو اللہ کے سپرد کر دیں۔ بہترین پلاننگ والے والدین کے بچے ناکام اور فقرا کے بچے اسی دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کیوں کہ فیصلے رب کے ہاتھوں میں ہیں۔ اور وہ رب کہتا ہے"شیطان تمہیں فقر کا خوف دلاتا ہےاور برائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے"۔
یاد رکھیں رزق ہمی موت کی طرح ڈھونڈتا ہے اور محنت کرنے سے قسمت کا لکھا بڑھ بھی جاتا ہے۔ کیسا میرے رب کا احسان ہے کہ قسمت کا لکھاتو ملے ہی گا مگر نیک اعمال اور محنت اس میں اضافہ کرتے چلے جائیں گے۔ خود کو لمبی امیدوں سے آزاد کر لیں۔ اپنے سر پر سے منوں ٹنوں کا بوجھ اتار کر تو دیکھیں۔ اولاد کی بیس سالہ پلاننگ چھوڑ دیں۔ ان کے بہترین مستقبل کے لئے تربیت کریں اور دعائیں مانگیں۔ کیوں کے آپ کا اور آپ کی اولاد کا خالق ایک ہی ہے۔ اللہ آپ کے اور آپ کی اولاد کے راستے خود متعین کرے گا اور قدم خود بخود منزل کی طرف بڑھتے جائیں گے۔
۔ اپ ہر دن کو اپنا اخری دن اور ہر رات کو سوتے وقت اپنی اخری رات سمجھیں۔ یقین۔ مانئیے وقت فجر اٹھتے ساتھ اپ کے کے منہ سے الحمداللہ نکلے گا۔ کہ اللہ نے ایک اور دن کی مہلت دے دی۔ مزید اپنی نعمتوں سے لطف اٹھانے کی اجازت دے دی۔ اپنی عبادت کے لئے ایک اور دن دے دیا۔ گناہوں سے معافی مانگنے کی توفیق دے دی۔ اور کیا چاہیے ہمیں اپنے پیارے رب سے۔