Kainat Ka Malik
کائنات کا مالک

ایک مشہور کالم نگار کا ایک کالم پڑھنے کا موقع ملا۔ یقین کریں پڑھ کر آنکھوں میں آنسو ہی آگئے۔ بے اختیار ہونٹوں پر حضرت یعقوبؑ کی دعا آگئی "میں اپنی بے بسی اور غم کا اظہار اللہ ہی سے کرتا ہوں"۔
میری ذات، میری حیثیت، میری اوقات، رب تعالیٰ کے سامنے ریت کے ایک ذرے کے برابر نہیں۔ مگر رب سے جب بھی ڈرتے ڈرتے محبت، اطاعت، فرمانبرداری کے ساتھ دنیاوی لوگوں کی طرف سے دی گئی تکلیف کا گلہ کرنا ہو تو یہ دعا خودبخود یاد آجاتی ہے۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نا کوئی بندہ رہا، نا کوئی بندہ نواز
یہ جھوٹا شعر کس نے لکھا تھا؟ کس نے کہا تھا میرا رب اجلے حسین چہرے، تن کے قیمتی کپڑے، پیروں کے مہنگے جوتے نہیں دیکھتا۔ کس نے کہا تھا ہاتھ سے سلے، بے رنگ سفید کفن میں نہلا دھلا کر، خوشبو لگا کر رب تعالیٰ سے ملاقات کے لیے سپرد خاک کر دو۔
وہ بھی تو ملاقات ہی ہوگی نا۔
اور ایک ملاقات روز محشر حشر کے میدان میں ہوگی۔ کیسے اور کس حالت میں ہم سب گردن جھکائے کھڑے ہوگئے۔ یہ سب مسلمان جانتے ہیں۔
کہاں پڑھا تھا کہ غلے کے ڈھیر کو مسترد کرکے صرف ایک دنبے کی قربانی قبول کی گئی اور ایسی قبولیت ملی کہ آج تک اس کی یاد میں قربانی کا عمل دوہرایا جاتا ہے۔
کس کے ننگے پیروں سے پانی کی تلاش میں لیے گئے چکر اتنے پسند آئے کہ اپنے گھر میں آنے والوں پر یہ عمل فرض کر دیا گیا۔ ان۔ پیروں میں تو قیمتی جوتے نہیں تھے؟
کس نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہر سے نہیں، تمہارے باطن کو دیکھتا ہے۔
کس نے کہاتھا کہ اپنی ضرورت سے زائد مال کو مساکین میں تقسیم کر دو۔
کس نے کہا تھا کہ فضول خرچ شیطان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ کون سے صحابہ رضی تعالیٰ عنہ تھے، جنھیں کفن کا کپڑا نا ہونے کے باعث گھر کے کپڑوں میں دفنایا گیا تھا۔
بیٹے نے جمعے کے خطبے میں سنا واقعہ گھر آکر پتا نہیں کب بتایا تھاکہ ایک امیر صحابی نبی کریم ﷺ سے ملنے آئے، اسلام قبول کرنے کے بعد قیمتی پوشاک کی بجائے عام لباس پہنا۔ تو نبی کریم ﷺ نے اس عمل کو پسند فرمایا تھا۔
وہ کپڑا جو اللہ سبحانہ وتعالی کے گھر کو ڈھانپنے کے لیے مخصوص ہے۔ اس کا احترام کچھ لوگوں کے نزدیک فرض نہیں۔ مگر کیا بحثیت مسلمان واجب بھی نہیں؟
سب کچھ دماغ میں گڈ مڈ ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ عزت، ذہانت، دولت اور شہرت دینے کے بعد بھی آزمائش کا عمل نہیں روکتے۔ اس بات پر یقین مزید مضبوط ہوگیا۔
میرے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے پاس ایک بدو آیا۔ سوال کیا۔ اے اللہ کے رسول ﷺ روز محشر میرا حساب کیا اللہ تعالیٰ خود لیں گے؟
آپ ﷺ نے ہاں میں جواب دیا۔ وہ بدو اٹھا اور یہ کہتے ہوئے چل دیا کہ پھر مجھے کوئی فکر نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا اس نے اپنے رب کو درست پہچانا۔
آج شدت سے یہ حدیث نبوی ﷺ یاد آئی۔ ورنہ غریب عوام کا کیا بنتا؟
اور اگر پاکستان کی غریب عوام کا حساب لینے کی ڈیوٹی نعوذباللہ اشرافیہ کی لگ جاتی۔۔ تو میرا کیا بنتا؟ میں تو خدانخواستہ سیدھی جہنم میں پہنچتی۔
جو سولہ لاکھ کا سوٹ اور آٹھ لاکھ کا جوتا نہیں پہن سکتے۔ وہ تو سب جہنمی ہو گئے۔۔
پھر الحمدللہ بولا کہ میں مسلمان ہوں۔ اگر ٹرمپ کا کوئی صحافی میرے دنیا میں پہنے عام لباس پر سوال اٹھا دیتا تو میں مجبور غریب عوام کہاں جاتی؟
سوچا۔۔ ایک مزدور مزدوری کر رہا تھا، وقت عصر آگیا۔ مزدور نے کپڑوں کی مٹی جھاڑی، وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ تو کیا اسے مسجد سے نکال دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی دعا نہیں سنیں گے؟
اللہ تعالیٰ قیمتی لباس، شاندار مہنگے جوتوں سے راضی ہونے لگتے، تو غربا، مساکین، نادار کہاں جاتے؟ ایک ایک روپیہ جوڑ کر خانہ کعبہ جانے والوں پر تو نعوذباللہ من ذالک نظر کرم ہی نا ہوتی۔
مانتی ہوں کہ صاحب حیثیت اگر جان بوجھ کر کسمپرسی اپنائے، تو اسے دین میں پسند نہیں کیا گیا۔ خوامخواہ ظاہری طور پر غربت اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل جو حلال طریقے سے حاصل ہوا ہے۔ اس کا اظہار ایک مناسب حد میں رہ کر ضرور نظر آنا چاہیے۔
مگر ہاتھوں میں پکڑے قلم کی طاقت سے کوئی کچھ بھی لکھ دے اور ہزاروں لوگوں کے دلوں میں ملال پیدا کردے۔ کیسی بات ہے؟
میرے انتہائی پسندیدہ قابل احترام کالم نگار اپنی صاف دلی اور معصومیت میں اپنے چالاک دوست کے ہاتھوں دھوکہ کھا گئے۔ جس نے اپنی فضول خرچی کو اسلامی ٹچ دے کر وضاحت دی اور انھوں نے اپنے بھولپن میں یقین کرکے کالم ہی لکھ ڈالا۔
دل میں خیال آتا ہے کہ وہ ڈی سی بہت جہاندیدہ اور ذہنی طور پر آزاد شخص تھا اسی لیے ان کے دوست کے ظاہری حلیے سے متاثر نہیں ہوا۔
صرف ایک سوال ہے کہ سی ایم پنجاب مریم نواز شریف سب سے قیمتی کپڑے اور جوتے پہنتی ہیں۔ جب کہ میں ان اشیاء کو افورڈ نہیں کر سکتی اور اگر افورڈ کر بھی لوں تو کبھی خریدنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ غریب عوام جو ہوں۔ تو کیا رب تعالیٰ میری دعائیں سن لیں گے اور میری عبادات اس رمضان میں قبول کر لیں گے؟
کوئی میرے اس سوال کا جواب دے گا؟
یاد رکھیں کائنات کے مالک کو نیت اور تقویٰ پسند ہے۔ وہ ظاہر نہیں باطن دیکھتا ہے اور کس کا باطن کتنا شفاف، حسین اور قیمتی ہے۔ یہ خالق کے سوا کون جان سکتا ہے؟
خدارا اشرافیہ کی عیاشیوں، فضول خرچیوں کو اسلامی ٹچ کے لبادے میں نا لپیٹیں۔