Kaali Bherain
کالی بھیڑیں
شہباز شریف ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ میں نے وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت سے انھیں پنجاب کی قسمت بدلتے دیکھا ہے۔ یہ منصوبہ کاغذوں میں نہیں بناتے بلکہ عوام کے سامنے مجسم بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ اپنی غریب عوام کا احساس ان کے صرف دل میں نہیں بلکہ چہرے پر نظر آتا ہے اور اکثر آنکھوں میں آنسو بن کر چھلکتا بھی ہے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے شہباز شریف کے دعوے کے مطابق لاہور کو پیرس بنتے دیکھا، اور پھر عثمان بزدار کے دور حکومت میں لاہور کو ایک پسماندہ گاؤں میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ مجھے ہمیشہ محسوس ہوا کہ شہباز شریف پاکستانی عام عوام کے لیے اللہ تعالٰی کی ایک نعمت ہے۔ جو شاید اللہ تعالیٰ نے ترس کھا کر اس بے بس عوام کو عطا کر دی ہے۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود شہباز شریف میں کچھ باتیں ایسی ہیں۔ جن پر مجھ عام عوام کو اعتراض ہے۔ اگرچے اس اعتراض کی دو ٹکے کی اہمیت نہیں۔ پھر بھی بتانا چاہتی ہوں۔
ایک تو یہ نواز شریف کی اندھی محبت میں مبتلا ہیں اور یہ محبت بہت ساری جگہوں پر انھیں نقصان پہنچاتی ہے۔ خونی رشتوں سے محبت فطری عمل ہے۔ مگر یہ محبت اندھی نہیں ہونی چاہیے اور نا ہی حد سے بڑھنی چاہیے۔
دوسرے یہ بولنے میں احتیاط کا دامن نہیں پکڑتے۔ کبھی یہ وٹو کا چٹو بناتے تھے۔ تو کبھی یہ مرحوم گورنر کی کالی عینک پر تنقید کرتے تھے۔ کبھی یہ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹتے تھے اور اب ججز کے درمیان کالی بھیڑوں کا بیان پاکستان میں گونج رہا ہے۔ اندازہ کریں اس بیان کا اثر اتنا مضبوط تھا کہ محترم ججز نے خود کو بھونڈ ہی قرار دے دیا۔
حالانکہ ہم لاہوری بھونڈ کو انتہائی غلط معنوں میں لیتے ہیں۔ سب لاہوری میری اس بات سے اتفاق کریں گے۔
مجھے ججز کے درمیان کالی بھیڑوں کی موجودگی پر شبہ نہیں یقین ہے۔ مگر کالی بھیڑیں کہاں نہیں ہیں۔ آپ پاکستان کے ہر گورنمنٹ اور پرائیویٹ ادارے کو دیکھ لیں۔ یہ ادارہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ کیا اس میں کالی بھیڑیں نہیں ہیں؟ محلے کا اسکول ہو یا گورنمنٹ اسکول، پولیس کا محکمہ ہو یا صحت کا؟
کہاں کالی بھیڑیں نہیں ہیں؟ کیا ن لیگ میں سب بھیڑیں سفید ہیں؟ یا باقی سیاسی جماعتوں کی بھیڑیں سفید اور اجلی ہیں۔ تو پھر کیا ہوا؟
اگر منصف بھی اپنی مرضی کے فیصلے کریں اور انصاف کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیں۔
اس رہگزر پر سب ایک ہیں۔
پھر کیسا گلہ؟ گلہ شکوہ تو عام عوام کو کرنا چاہیے۔ جو اپنے کیسز میں انصاف کے حصول کے لیے رسوا ہوتے ہیں۔ وکیلوں کی فیسز بھر بھر کر غریب ہو جاتے ہیں۔ مگر اپنا جائز حق نہیں لے پاتے۔
اشرافیہ کی جیل بھی کون سا پر مشقت ہے۔ یہ تو جیل کاٹ کر بڑے لیڈر بنتے ہیں۔ ہم عام عوام کے سروں پر چڑھ کر مزید ناچتے ہیں۔ انقلابی بن جاتے ہیں۔
جہاں غریب عوام کو مٹن کڑاہی صرف بقر عید پر دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔ یہ لوگ جیل میں اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سب ثبوتوں کے باوجود ٹھاٹھ سے اسکرین پر آتے ہیں اور ہم عام عوام کے منہ پر طمانچہ رسید کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ جتنی چاہو تنقید کرو۔ تم لوگ کیڑے مکوڑے ہو ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
کیا اچھا ہوتا کہ شہباز شریف ان کالی بھیڑوں پر جوش خطابت آزمانے کی بجائے صرف عام عوام کو ریلیف دینے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ پاکستانی سیاست میں میسنا کامیاب ہے۔ ویسے بھی غیر محتاط گفتگو صرف جلسوں میں یا کارکنان کی مجلسوں میں ہی زیب دیتی ہے اور یہ جلسہ ہونا بھی عمران خان کا چاہیے جہاں خاتون جج کو نام لے کر دھمکایا گیا تھا۔ جہاں ججز سمیت کسی کی عزت محفوظ نہیں تھی۔ مگر کبھی کسی جج کو غصہ نہیں آیا اور اپنی تصویروں پر جوتے کھا کر بھی ہر بات کو نظر انداز کیا گیا۔ کاش کے ساس کی لیک گفتگو پر ہی کسی جج کو غصہ آتا۔
ہم عام عوام کی دلی خواہش ہے کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور مزید کوئی تجربہ نا ہو۔ ورنہ اس ملک میں ثاقب نثار جیسے منصفوں کی کمی نہیں۔ جو چھپ کر گھات لگائے بیٹھے ہیں۔