Ji Bhar Kar Waqt Zaya Karen
جی بھر کر وقت ضائع کریں
کہتے ہیں وقت وہ سب سے قیمتی چیز ہے، جو گزرنے کے بعد واپس نہیں آتی۔ دنیا کے سب کامیاب لوگوں کی بائیو گرافی کا مطالعہ کریں۔ ان میں سے ہر شخص کی ایک عادت مشترک نظر آتی ہے کہ یہ لوگ اپنے وقت کا بھرپور استعمال کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ بلکہ بہت سے لوگ اس بات کا گلہ کرتے ہیں کہ ہمیں وقت کم ملا۔ شاید ہم اور زیادہ کام کرکے دنیا کو فائدہ پہنچا سکتے۔
دنیا میں جب ملکوں کی تقسیم ہوئی، سرحدیں بنیں، نظام بنے اور ہر ملک میں قوانین کا اطلاق ہوا۔ تو ان کے انتظامی امور انہی قوانین کے مطابق طے پائے۔
پیارے ملک پاکستان میں بھی قوانین بنے اور ان کا اطلاق ہوا۔ انہی قوانین کے تحت انتظامیہ بنی۔ ان انتظامی امور کو چلانے کے لیے لوگوں کو مخصوص وقت دیا گیا۔ یعنی صدر سے لے کر ایک کلرک کو بھی مخصوص وقت دیا گیا تا کہ یہ لوگ ملکی ترقی کے پروگرام اپنے دئیے گئے وقت میں پورے کر سکیں۔ مگر ہم اس کے بالکل متضاد چل رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں چھوٹے سے لے کر بڑے عہدے تک ہر کوئی پہنچنا چاہتا ہے۔ عہدے کے حصول کے لیے باقاعدہ جہدوجہد کرتا ہے۔ اس عہدے پر زندگی کی آخری سانس تک براجمان رہنا چاہتا ہے۔ مگر محنت نہیں کرنا چاہتا۔ لوگوں کو فائدہ نہیں دینا چاہتا۔ صرف وقت کو کھینچ کھانچ کر گزارتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ سہولیات اور مراعات حاصل کرتا ہے۔ حالانکہ قدرت اسے لوگوں کی زندگی میں آسانی لانے کا موقع دیتی ہے۔ مگر یہ شخص صرف اپنا سوچتا ہے۔ جتنا بڑا عہدہ خود غرضی بھی اتنی بڑی۔ کیسی عجیب بات ہے نا۔
ہمارے ملک کی ہر سیاسی جماعت کو، اس سیاسی جماعت کے ہر رہنما کو وزیر، وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم اور صدر بننے کا شوق ہے۔ کچھ تو کام کر جاتے ہیں۔ مگر زیادہ تر صرف مدت پوری کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں اور اپنے وقت کو فضولیات میں ضائع کرتے ہیں۔
آپ کے پی کے کے وزیر اعلیٰ کو دیکھ لیں۔ انھیں سی ایم بننے کا شوق تھا۔ وہ بن گئے۔۔ مگر انھیں پتا نہیں کہ ان کا کام کیا ہے؟ وہ سوچتے ہیں کہ میرا کام صرف اپنے سابقہ چئیر مین پارٹی کو جیل سے نکالنا ہے۔ اس کے لیے وہ قانون کو بھی ہاتھ میں لینے پر تیار رہتے ہیں اور وقت کی تو کوئی کمی ہی نہیں۔ اس لیے وہ آئے دن جلسے اور یلغار میں مصروف رہتے ہیں۔ ظاہر ہے وقت کو بھی تو گزارنا ہے۔ اس وقت کا اس سے اچھا مصرف کیا ہوگا؟ یہی چلن ان کے لیڈر کا تھا اور وہ بھی اس راستے پر آنکھیں بند کرکے چل رہے ہیں۔
ان کا لیڈر بھی جلسے، سڑکیں اور شہر بند کرنے کا شوقین تھا۔ یہی شوق اس کے رہنماؤں میں بھی پایا جاتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عام عوام کب تک ان کے ہاتھوں بیوقوف بنتی رہے گی؟ آخر کب تک اپنا اور اپنی آنے والی نسلوں کا قیمتی وقت ان لوگوں پر ضائع کرتی رہے گی۔ ایک ہی ڈرامہ کب تک بار بار چلتا رہے گا؟
آخر یہ لوگ کون سی ایسی آسمانی مخلوق ہیں، جو ان کے بغیر ملک چل ہی نہی سکتا۔
یاد رکھیں کسی کو بھی اہم ہم بناتے ہیں۔ ہم اہمیت نا دیں تو کوئی بھی اہم اور ناگزیر نہیں۔
کے پی کے کے سی ایم کو اللہ ربّ العزت نے عہدہ اور وقت دیا ہے کہ وہ عوام کی فلاح کے لیے کام کر جائیں۔ مگر وہ وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ تو جی بھر کر ضائع کریں۔ جب سے پاکستان بنا ہے، کون اشرافیہ اور صاحب اقتدار سے حساب لے سکا ہے۔ اب بھی کوئی نہیں لے گا۔
تو بس احتجاج کریں، درخت جلائیں، محافظوں پر پتھر برسائیں۔ ان۔ کی جان لے لیں۔ عوام۔ کے ٹیکسز کا پیسہ برباد کریں۔ کس میں جرآت ہے آپ سے سوال کر سکے۔ کیوں کہ آپ صاحب اقتدار اور اشرافیہ ہیں۔ جنھیں قتل بھی معاف ہو جاتے ہیں۔