Jhoot Aur Beimani Ke Gharrey
جھوٹ اور بے ایمانی کے گھڑے
میں نے بچپن سے بہت سا ایسا کتابی علم حاصل کیا۔ جس کے حوالہ جات مجھے معلوم نہیں۔ صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں نے یہ بات کہیں پڑھی تھی۔ کیوں کہ مجھے یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ کبھی زندگی میں یہ بات لکھنا بھی پڑے گی۔ ورنہ شاید ہر بات کا حوالہ یاد رکھتی۔
کسی اخبار یا رسالے میں ایک حدیث پڑھی۔ اگر ضعیف ہے تو ہاتھ جوڑ کر پیشگی معزرت قبول کریں۔
ایک صحابی رسول ﷺ نے اپنی لکھی ہوئی تحریر کو سکھانے کے لئے دوسرے صحابی رسول ﷺ کے مکان کی مٹی بغیر اجازت کھرچ کر استعمال کی۔ بعد میں ان سے کہا گیا کہ روز محشر آپ کو اس مٹی کا حساب دینا پڑے گا۔
کون نہیں جانتا کہ ہمارے نبی ﷺ فتوحات میں بھی جری صحابہ رضی تعالیٰ عنہ کو سراہتے تھے۔ سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اپنے ساتھیوں کو ان کی محنت کا مکمل صلہ دیتے تھے۔ کیوں کہ پیارے نبی ﷺ جانتے تھے کہ ان کا ہر عمل تا قیامت تک ایک بنی نوع انسان کے لیے ایک معیار بنا رہا ہے اور ہم نےدنیا و آخرت میں فلاح پانے کے لیے اس راستے پر بغیر بحث کیے چلنا ہے۔
ہمارےپیارے نبی ﷺ نے ایک بہترین معاشرے کو بنایا۔ لیکن ہم پاکستان کے مسلمان کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے دین کے راستے کو تو چھوڑا ہی، اخلاقیات کے دنیاوی معیار کو بھی جھٹلا دیا۔
کوئی موٹیویشنل اسپیکر کوئی ناصح ہمیں نا سدھار سکا۔ ہمارا ہر جج جو ہمیں فیور دے وہ عادل اور دوسرے منافق ہیں۔ ہمارا ہر صحافی سیاسی وابستگی رکھتا ہے۔ لہزا وہی سیاسی جماعت اور لوگ اس ملک کے لیے ناگزیر ہیں۔ جن سے وہ فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جس کا جو داؤ لگتا ہے یا کہیں جس کی جہاں تک پہنچ ہے۔ وہ بے ایمانی کرتا ہے اور اس پر شرمندہ ہونا تو دور کی بات اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ دین اسلام میں جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے اور اس پر قرآن مجید میں لعنت فرمائی گئی ہے۔ ہم لوگوں کو جھوٹ بولتے ہوئے شرم تو دور کی بات، احساس بھی نہیں ہوتا۔
دین اسلام نے حلال اور حرام کی تمیز واضح کی۔ ہمیں بتایا گیا کہ حلال حرام صرف کھانے پینے کی اشیاء تک محدود نہیں۔ بلکہ ملازم کی کام چوری بھی حلال نہیں۔ کسی مسلمان بھائی کی تحریر یعنی خط، کو بغیر اجازت دیکھنا بھی حرام ہے۔ دل میں غلط خیال چھپا کر کسی کو دیکھنا، اس کی پوشیدہ بات کی ٹوہ لینا بھی حرام ہے۔ کسی کی محنت چرا کر وقتی فائدہ اٹھانا بھی حلال نہیں۔
غرض آپ اس حلال اور حرام کے تصور کو جتنا گہرائی میں جا کر دیکھتے جائیں۔ آپ کے ذہن کی جہتیں کھلتی جائیں گی۔ آپ کو اپنے دین پر اپنے نبی ﷺ کے امتی ہونے پر فخر ہونا شروع ہو جائے گا۔ لیکن اس فخر کے لیے کثافتوں سے پاک دل چاہئے۔
میں خود کو اس کائنات کی سب سے گناہ گار انسان سمجھتی ہوں جو صرف اپنے رب تعالیٰ سےامید لگائے زندہ ہے۔ میں نصیحت کرنے کے قابل نہیں۔
مگر صرف درخواست ہے کہ اپنے ذاتی محاسبےکی ضرورت اس وقت جتنی ہے، شاید کسی دور میں نہیں ہوگی۔ جب ہم خود سچے اور درست نہیں تو کسی کوجھوٹا اور بےایمان کہنے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔ ہماری زندگیوں سے برکت ہر لحاظ سے روٹھ چکی ہے۔ ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ منوں مٹی تلے دفن بھی ہونا ہے۔
خدارا شخصیت پرستی کے سحر سے نکل آئیں۔ چھوٹی بے ایمانی اور چھوٹے جھوٹوں سے اجتناب کر لیں۔ کیوں کہ ان بے ایمانیوں کے نوکیلے کنکروں سے جھوٹ کے گھڑے بھرتے جا رہے ہیں اور یہ نا ہو کہ اللہ رب العزت کوجلال آجائے۔ پھر فرشتوں کو حکم ہو کہ منادی کرادو یہ شخص جھوٹا اور بے ایمان ہے۔ یہ منادی آسمان سے شروع ہوکر زمین تک پہنچ جائے اور ذلت مقدر ٹھہرے۔
جس دین اسلام میں کھرچ کر حاصل کی گئی مٹی کا حساب دینا پڑےگا۔ ہم کیسے جھوٹ اور بے ایمانی کے سہارے چل سکتے ہیں؟ یہ تو کائناتی سچ کی طرح مسلم حقیقت ہے کہ حساب کتاب ہوگا اور بہت سخت ہوگا۔ یاد رکھیں جھوٹ اور بے ایمانی ایک دلدل کی طرح آپ کو اپنے اندر سموتی جاتی ہے اور سچائی کا راستہ ایک ایسی پگڈنڈی ہے۔ جس ہر چلنے والے کے پاؤں نرم گھاس پر اور اطراف میں خوشبودار دل آویز پھول کھلے ہوئے ہیں۔
ہم سب نے یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ ہمیں کس طرف چلنا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھ سمیت سب کو اپنی رحمت کے سائے تلے رکھے آمین۔