Insan Banen
انسان بنیں

پاکستانی معاشرے میں ایک رویہ بہت زیادہ جڑ پکڑتا جا رہا ہے۔ مجھ سمیت ہر طبقے کے لوگ اس رویے کا شکار اور اس لت میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ رویہ دوسروں کو آزمانے اور بدلہ لینے کا ہے۔
اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ جب آپ کسی نوکری کی تلاش میں جاتے ہیں تو سامنے بیٹھا بندہ خوامخواہ کندھے چوڑے کرکے گھومنے والی کرسی پر ٹیک لگا کر آپ کی فائل ہاتھ میں پکڑ لے گا۔ جن ڈگریوں کو حاصل کرنے کے لیے آپ کے زندگی اور جواں عمری کے کئی سال شاید ضائع ہونے۔ وہ شان بے نیازی سے اسے پلٹنا شروع کر دے گا۔ سمجھ چاہے کچھ بھی نا آرہا ہو۔ مگر وہ خود کو نعوذباللہ من ذالک ایسا رازق سمجھے گا۔ جس نے چند ہزار یا چند لاکھ کی نوکری سے دوسرے کو خرید کر غلام بنا لینا ہے۔ پھر ڈگریوں، کے پلندے، تجربے کے بے کار صفحے پلٹتے پلٹتے اسے کام کی چیز مل ہی جائے گی۔ یعنی کس مضمون میں کم نمبر، سیکنڈ یا تھرڈ ڈویژن اور کچھ تو اس بات پر بھی سوال کرتے ہیں کہ پچھلا ادارہ چھوڑ کر ہمارے ہاتھوں ذلیل ہونے کیوں آئے ہو؟
پہلا مرحلہ اگر طے ہوگیا تو نوکری دئیے بغیر چارہ نہیں تو پھر تنخواہ طے کرنے کا موقع آتا ہے۔ آپ یقین کریں صرف کسی بھی ادارے کے آگے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے سامنے بیٹھا شخص جو خود بھی ملازم ہوتا ہے۔ آپ سے بھاؤ تاؤ شروع کر دیتا ہے۔ کم سے کم تنخواہ پر آپ کی مجبوری خرید کر زیر لب مسکراتا ہے۔
اب اگلی آزمائش کام کی ہے۔ آپ سے کام اس طرح لیا جاتا ہے۔ جیسے آپ کو مہینے کے بعد روپے نہیں۔ پاونڈز یا ڈالرز ملنے ہیں۔
سارے کولیگز اور انتظامیہ کم از کم ایک سال تک آپ کو ذہنی تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے۔ شکایت کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ آپ کو آزمایا جا رہا ہے۔
گھریلو سطح پر اس سے بھی خوفناک صورت حال ہے۔ گھریلو خواتین جو ہمیشہ بھولی، معصوم بن کر کام کرنے والی خواتین کو چالاک اور ہوشیار کے خطاب دیتے زندگی گزار دیتی ہیں۔ ان کی حرکات پر کبھی غور فرمائیں۔ یہ غور کرتے وقت والدہ، بہن، کو اس فہرست سے ہر گز نا نکالیں۔ جس میں بیوی اور بیٹی سب سے پہلے شامل ہوتی ہیں۔
آنے والی بہو کے سر پر ذمہ داریوں کا بوجھ ایسے ڈالا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ اور ہر بات پر سسرالی خواتین یہ جتانا فرض سمجھتی ہیں کہ ہم نے ساری جوانی یہ سسرال سنبھالتے گزار دی۔ اب جا کر ہماری آزمائش ختم ہوئی ہے۔
درحقیقت وہ نئی آنے والی کو یہ بتا رہی ہوتی ہیں کہ ہم اب تمہاری آزمائش لینے کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔
مرد حضرات بھی کسی سے کم نہیں۔۔
ایک قریبی عزیز اس لت میں بری طرح مبتلا ہیں۔ وہ کوئی بات کرتے ہیں۔ پھر اس بات کا ردعمل دیکھنے کے لیے دوسرے شخص کے بارے میں مختلف لوگوں سے رائے لیتے ہیں۔ پھر سب کی رائے اکھٹی کرکے اندازہ لگاتے ہیں کہ کون ان کا اصلی اور نسلی درباری ہے۔ ایک مرتبہ بولے سب رشتے داروں کو آزماؤ، جو پورا اترے وہی ملنے کے قابل اور دل سے مخلص ہے۔ میں خاموشی سے یہ قول زریں سنتے ہوئے سوچ رہی کہ آپ کو "کون" اور "کیسے" آزمائے گا۔ کبھی یہ بھی سوچا ہے؟
اولاد کو تو قرآن کریم میں آزمائش قرار دیا گیا ہے۔ یہ ہر وقت ہم سے اس بات کا بدلہ لینے پر تیار رہتے ہیں کہ ہمیں بچہ سمجھ کر بے تحاشا محبت کیوں کی؟ اور ہمیں اولاد کی بجائے اپنے والدین کیوں نہیں سمجھا جاتا؟
بہن بھائی بچپن کی نا سمجھی میں ہونے والی لڑائیوں کو دلوں میں نفرت بنا کر پالتے ہیں۔ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جب اس نفرت کے چھپے ہوئے پودے کی آبیاری نا کرتے ہوں۔ یہ تناور درخت پھل تب دینا شروع ہوتا ہے۔ جب والدین اللہ کی رحمت میں چلے جائیں۔ سب کی شادی شدہ ہوں اور جائیداد کی تقسیم کے بارے میں کوئی وصیت نا ہونے کے سبب یہ مرحلہ آپس میں طے کرنا ہو۔
یقین مانیئے اذان کی آواز پر مسجد کی طرف دوڑ لگانے والے، شرک پر بڑے بڑے فتویٰ دے کر دوسروں کو جہنمی قرار دینے والے، مشرکانہ عقائد رکھنے پر لوگوں کی نماز جنازہ نا پڑھنے والے، پورے دس منٹ تک وضو کرنے کے بعد، طویل رکوع وسجود کرنے والے، ہر بات پر مسنون دعائیں پڑھنے والے، راتوں کو تہجد اور رمضان المبارک میں باجماعت تراویح پڑھنے والے حضرات۔ جائیداد اور ترکہ کھاتے وقت ڈکار ماننا تو بہت دور، منہ بھی نہیں ہلاتے۔ یہ لوگ اس آزمائش کو ہنس کر قبول کرتے ہیں اور ساری زندگی استغفار کی تسبیحات، طویل نمازوں میں اللہ تعالیٰ سے پوچھتے ہیں کہ ہم سے کیا گناہ ہوگیا۔ جو سکون نہیں ملتا۔
حکمرانوں اور اشرافیہ کو دیکھ لیں۔ اس عمر تک پہنچ جائیں گے جب فرشتہ اجل کبھی بھی، کہیں بھی ملاقات کرنے آ جائے گا۔ مگر اپنی اولاد کے علاؤہ کسی کی تربیت نہیں کرتے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے قابل بن سکے۔ ملک پر حکمرانی کا خواب آخری سانس تک دیکھتے ہیں۔ مخالفین کے غلط فیصلوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ کیوں کہ مخالف کا ناکام ہونا سیاست میں ریاست کے کامیاب ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔
عوام کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ انھیں بھی ہماری قدر ہو۔ یہ حکمران، سیاست دان عام عوام کی آزمائش ہیں۔ ان کے سراہنے والے صحافی، پیڈ کارکنان ان کو خوشامد کی آزمائش میں مبتلا رکھتے ہیں اور یہ ہنستے، مسکراتے، کھلکھلاتے اس آزمائش کو گلے لگاتے ہیں۔
ہم سب کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم انسان ہیں۔ انسان ہی رہیں گے۔ آزمائش کا حق صرف خالق کو حاصل ہے۔ ہم انسان جب اپنے دائرے سے نکل کر زمینی خدا بننے کی کوشش کریں گے تو اسی زمین پر منہ کے بل گریں گے۔ اس لیے صرف انسان بنیں۔ آزمائش کا حق خالق کا ہے۔ اسے مت چھیڑیں۔ آپ صرف وسیلہ ہیں۔ اس سے ںڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ سب کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔