Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Imran Khan Kuch To Grace Dikhayen

Imran Khan Kuch To Grace Dikhayen

عمران خان کچھ تو گریس دکھائیں

پچھلے دنوں جاوید چوہدری کا ایک وی لاگ سننے کا اتفاق ہوا۔ جاوید چوہدری صاحب ہٹلر کی کہانی بیان کر رہے تھے کہ جیل میں ایک صحافی ہٹلر سے ملاقات کے لئے آیاتو اس نے ہٹلر سے پوچھا کہ آپ جیل میں سہولیات کیوں نہیں مانگتے؟

ہٹلر نے جو جواب دیا۔ وہ سننے اور سمجھنے کے قابل ہے۔ اس جواب سے یہ قول سچ ثابت ہو جاتا ہے کہ اچھی بات دیوار پر بھی لکھی ہو تو اسے پڑھ کر عمل کر لیں۔

ہٹلر نے کہا کنگ یعنی بادشاہ کبھی مانگتا نہیں، بلکہ وہ آڈر دیتا ہے اور جب آڈر یعنی حکم دینے کی پوزیشن میں نا ہوتو خاموش رہتا ہے۔

آپ یقین مانیے یہ فقرے سن کر میرے ذہن میں پہلا خیال نواز شریف، مریم نواز شریف اور عمران خان کے بارے میں آیا۔ کیوں کہ ان تینوں کا عروج وزوال میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، باقیوں کے بارے میں تو صرف سنا ہے۔

تین مرتبہ کا وزیر اعظم اپنی بیٹی کو لے کر جہاز سے اترا اور سیدھا جیل پہنچ گیا۔ جہاں اسے زمین پر سلایا گیا۔ جیل کے حالات ان دونوں کے لئے کیسے تھے؟ یہ صرف میڈیا سے ہی پتا چلتا تھا۔ یا صحافیوں کے کالم سے کچھ معلومات حاصل ہوتی تھیں۔ ہاں مگر مجھے یاد ہے، جس دن کلثوم نواز صاحبہ کی ڈیتھ ہوئی اس دن باپ، بیٹی اور داماد تینوں کی حالت دیکھ کر اس دکھ کو دل سے محسوس کیا۔ مجھے امید تھی شاید اب یہ واپس جیل نا جائیں مگر پھر تینوں کی واپسی ہوئی۔ بعد میں سنا کہ نواز شریف نے جیل میں محبوب بیوی کے جنازے میں شرکت کے لئے دی گئی درخواست پر سائن نہیں کیے تھے بلکہ شہباز شریف نے اس درخواست پر دستخط کیے تھے۔

نواز شریف، مریم نواز شریف کیپٹن صفدر تینوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے انھیں نچوڑ کر رکھ دیا ہو۔ لیکن میں نے نا کسی رہنما اور ناہی شریف خاندان کے کسی بندے کے منہ سے گلہ سنا۔ ان باتوں نے قوم کے دل میں ان کی محبت کو اور مضبوط کیا۔ ان کے احترام میں مزید اضافہ کیا۔ اسی صبر اور گریس فل ضبط کا نتیجہ ہے کہ آج ہر کوئی نواز شریف کی بات کو اہمیت دیتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ کیوں اقتدار کا ہما بار بار نواز شریف کے سر پر بیٹھتا ہے۔

اب بات کریں امت مسلمہ کے لیڈر عمران خان کی۔ جس کی گرفتاری کو روکنے کے لیے نو مئی جیسا دلخراش واقعہ رونما ہوا۔ پورے ملک میں افراتفری پھیلائی گئی۔ پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کیا گیا۔ جادو ٹونے، چلے، شرکیہ کاموں کی بھرمار ہوگئی۔ آخر کار عمران خان گرفتار ہو ہی گئے۔ خیال رہے نواز شریف، مریم نواز شریف اور کیپٹن صفدر نے بے گناہ سزا کاٹی۔ جبکہ عمران خان کے گناہ گار ہونے کے ثبوت پوری قوم کے سامنے پیش ہوئے۔

آج عمران خان کو جیل میں تقریباً پندرہ دن ہوگئے۔ ان دوہفتوں سے ہر وقت عوام عمران خان کی فرمائشیں سن رہی ہے۔ کون سی ایسی چیز ہے۔ جو عمران خان کو مہیا نہیں کی گئی۔ مگر پھر بھی ان کے گلے شکوے ختم نہیں ہو رہے۔ بشری بیگم فرما رہی ہیں کہ عمران خان کے کندھوں کا گوشت غائب ہوگیا ہے۔ شاید وہ یہ بھول گئی ہیں ان کے شوہر جیل کاٹ رہے ہیں۔ جیل جتنی بھی شاندار کیوں نا ہو ایک بہتر سال کے بوڑھے کے لیے مشکل ہی ہے۔ لیکن اگر وہ بہتر سالہ بوڑھا سابقہ وزیر اعظم ہےتو اسے ہٹلر کا قول یاد رکھنا چاہیے کہ بادشاہ کبھی مانگتا نہیں۔

عمران خان کا بھی کوئی قصور نہیں ساری زندگی چندہ مانگتے گزری۔ غریبوں کے چندے پر عیش کی۔ بیوی بھی لنگر خانوں کا مال کھاتی ہوئی آئی۔ جب ایسے لوگوں کے ہاتھوں ملک کی باگ ڈور دی گئی تو وہ لوگ پاگل ہو گئے۔ لوٹ کا مال اکھٹا کرنے میں ہی لگے رہے۔

عمران خان نے بتا دیا وہ کنگ نہیں تھا۔ اس کے صرف پیروکار تھے۔ جنھیں ادائیگیاں کی جاتی تھیں۔ اور وہ اپنے فالورز کو مخلص کارکنان سمجھ بیٹھا۔ بیچارہ عمران خان جو جوسر اور کپڑوں کے اسٹینڈ کی فرمائش دوسروں سے کرنے کا عادی تھا۔ اسے تو کنگ کی کرسی پر بیٹھانا ہی زیادتی تھی۔ اب وہ جیل میں چیزوں کی فرمائش کیوں نا کرے۔

لیکن پھر بھی میرا مشورہ ہے کہ عمران خان آپ گریس دکھائیں۔ اگرچے آپ جانتے ہیں کہ اب اقتدارِ کے کھیل میں آپ کی واپسی ممکن نہیں۔ پھر بھی باقی ماندہ زندگی عزت سے گزارنے کےلئے بہادری اور مردانگی کا سامنا کریں۔ عورتوں کے آنچل میں پناہی لینا چھوڑ دیں۔ کبھی حریم شاہ۔ کبھی جمائما، کبھی کسی کی ساس تو کبھی بشری بیگم کیا آپ کو فیور کرنے والا کوئی مرد بھی ہے؟

بس کر دیں اور اپنی بچی کچی عزت سنبھال کر خاموشی سے اپنا وقت گزاریں۔ یہی آپ کے لٹ بہتر ہے۔

Check Also

Haram e Pak Se Aik Ajzana Tehreer

By Asif Masood