Imran Khan Hurrem Sultan Se Seekhain
عمران خان حورم سلطان سے سیکھیں
حورم سلطان سلطنت عثمانیہ کی ایک بے حد مقبول اور مشہور ملکہ تھی۔ یہ سلطان سلیمان کے محل میں کنیز بن کر آئی۔ اپنی ذہانت اور قسمت کے بل بوتے پر سلطان سلیمان کی نکاح یافتہ زوجہ بنی۔ حورم سلطان نے اپنے ہاتھوں سے اپنی اپ ںیتی لکھی۔ ترکیہ میں اس پر بڑا مشہور ڈراما بھی بنا۔ اور تمام دنیا میں مرنے کے بعد بھی حورم سلطان مشہور ہوگئی۔
اگر ہم حورم کے کردار پر غور کریں۔ تو اس دور کے لحاظ سے انتہائی دلچسپ، ذہین، بہادر عورت کا کردار سامنے آتا ہے۔ اندازہ کریں کہ ایک عورت کو بار بار کنیز کہہ کر دھتکارا گیا۔ اس کی جان لینے کی کوشش کی گئی۔ مگر اس کے صبر اور ذہانت کی داد دینا ہوگی کہ ایک دن ایسا ایا کہ وہی لوگ اس کے سامنے جھکنے اور اسے عزت دینے پر مجبور ہو گئے جو اسے اپنے پاس بٹھانا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے جانی دشمنوں سے ہاتھ ملا کر برداشت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اپنی انا اور ضد پر قابو پا کر اسے اپنی طاقت بناتی ہے۔ فلاحی کاموں کے زریعے عوام کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرتی ہے۔ اور ان کے دلوں کی بھی ملکہ بنتی ہے۔
حورم کا ایک بیٹا شہزادہ بیاضت تھا جو انتہائی قابل اور بہادر شہزادہ تھا۔ حورم نے مرنے سے پہلے اپنے بیٹے کو ایک زرہ بھیجی اور خط کے ذریعے اسے نصیحت کی کہ اگر تم اقتدار کی جنگ جیتنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اپنی جان کی حفاظت کرنا۔ جب تم زندہ رہو گے تو ہی اقتدار کے کھیل میں کامیابی حاصل کر سکو گے۔ یہ الگ بات ہے کہ بیٹے نے ماں کی اس نصیحت پر کان نا دھرے اور اپنے سگے بھائی کے ہاتھوں ذلت آمیز موت اس کا مقدر ٹھہری۔
میں سوچتی ہوں ہمارے مشہور لیڈر عمران خان نے اپنے پیروکاروں کو ارتغل ڈرامہ دیکھنے کا حکم دیا تھا۔ کاش کے وہ اپنے فالورز کو میرا سلطان دیکھنے کا مشورہ دیتے۔ تو آج ان کی پارٹی کی یہ حالت نا ہوتی اور ان کے کارکنان جیلوں میں فیصلوں کے منتظر نا ہوتے۔ عمران خان کو حورم سلطان کے کردار کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ ویسی بھی عمران خان خواتین کی بات جلد سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ مغرب کی طرح وہ خواتین کو بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔
دنیا کہتی ہے عمران خان خوش قسمت ہے۔ میرے نزدیک عمران خان سے بڑا بدقسمت کوئی نہیں۔ مجھے یاد ہے۔ نواز شریف جیسا بڑا لیڈر اپنے دور اقتدار میں ایک مرتبہ بنی گالہ گیا۔ ظاہر ہے مقصد مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ مگر عمران خان نے اپنی انا اور ضد میں اس موقع کو گنوایا اور اپنے گھر کی سڑک بنوانے کی فرمائش کر دی۔
پھر جب یہ سیڑھی سے گر کر زخمی ہوا تو پھر نواز شریف ہسپتال میں اس کی عیادت کے لئے گئے۔ عمران خان نے اس موقع کو بھی گنوا دیا۔ شہباز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر میثاقِ معشیت کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر وہ ہاتھ جھٹک دیا گیا۔ یقینا باقی پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھی یہ کوشش کی ہوگی، مگر ناکام رہے۔
اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کے بعد اگر آپ راج کرنا چاہتے ہیں تو آپ فوج کے مضبوط ستون کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ عمران خان کا فوج سے رویہ ایسا تھا جیسے محلے کا کوئی لونڈا لپاڑا اپنے یار دوستوں سے برتاؤ کرتا ہے۔ ملک کے ساتھ رویہ اتنا غیر سنجیدہ تھا کہ عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے کبھی کہا جاتا کہ اپ نے گھبرانا نہیں اور کبھی کہا جاتا کہ سکون تو قبر میں ہی ملے گا۔ اب حال یہ ہے کہ عمران خان پیچھے پیچھے اور باقی سیاستدان آگے چل رہے ہیں۔ کوئی ان کے ساتھ بات کرنے کا روادار نہیں۔
سب سے زیادہ اذیت ناک بات یہ ہےکہ عمران خان ہمیں ملکی معیشت پر لیکچر دے رہے ہیں۔ پچھلے تین سال تو لگتا ہے ان کی یاداشت سے ہی محو ہو گئے ہیں۔ پی ڈی ایم کی وہ جماعتیں جن کی زندگیاں سیاست کرتے اور ملک سنبھالتے گزر گئیں۔ نواز شریف شہباز شریف جیسے لیڈرز جنھوں نے عوام کی زندگیاں بدل دی تھیں۔
ان کو عمران خان بتا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کیسے ہونے چاہیے؟ ملک کی معشیت کیسے سنبھالنی چاہئیے؟ قرب قیامت ہے یا آثار قیامت ہے۔ جو بھی سمجھ لیں۔
ویسے میرا عمران خان کو ایک مفت کا مشورہ ہے کہ ارتغل کی بجائے میرا سلطان خود بھی دیکھیں اور اپنے فالورز کو بھی دیکھانا شروع کر دیں تا کہ اپ سیاست سیکھ سکھیں اور اپ کے فالورز سیاسی کارکن بن سکیں۔ آپ کو پتا چلے کہ سیاسی میدان سے میں جگہ کیسے بنائی جاتی ہے۔ دشنوں سے بھی ہاتھ کیسے ملایا جاتا ہے۔ عمران خان جب آپ آزاد ہوں گے اور زندہ ہوں گے تب ہی اپ سیاست بھی کر سکیں گے اور اقتدارِ کی مسند پر براجمان ہو سکیں گے۔ پھر آپ کو ملاقاتوں کے لئے منتیں نہیں کرنی پڑیں گی۔ آپ کو قوم کے سامنے مظلوم ٹچ نہیں دینا پڑے گا۔ آپ جمہوریت اور اقتدار دونوں کو انجوائے کر سکیں گے۔ وگرنہ سر پر کالی بالٹی ڈال کر گھومتے رہیں۔ ایک دن آپ کے بالٹی میں محفوظ وجود کو راستہ دکھانے والابھی کوئی نا ہوگا۔