Hum Sab Waqai Pagal Hain?
ہم سب واقعی پاگل ہیں؟
پاگل لفظ ہندی زبان سے لشکری زبان اردو میں آیا۔ اردو لغت کے حساب سے اس کا معنی باولا، بے خوف، احمق اور دیوانہ کے ہیں۔ یہ لفظ اتنا عام ہو چکا ہے کہ ہم تقریباً بائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے ہر تیسرا بندہ دن میں کم از کم تین سے چار مرتبہ یہ لفظ ضرور بولتا ہے۔ صرف دوسروں کے لیے نہیں بلکہ خود کو بھی اکثر پاگل قرار دیتا ہے۔
اس لفظ کے بے دریغ استعمال نے اس کے معنی کی سنگینی کو بہت حد تک کم کر دیا ہے۔ اب ہم شعراء کی شاعری، کالم نگاروں کے کالم، سیاستدانوں کی گفتگو، اسکولز میں اساتذہ اکرام کو اپنے شاگردوں کے لیے اس لفظ کا عام استعمال کرتے دیکھتے ہیں۔ گھریلو سطح پر تو بات ہی نا کریں۔ کیوں کہ پورا خاندان ایک دوسرے کو پاگل کہتا نہیں بلکہ سمجھتا بھی ہے۔
لہذا پھر ثابت ہوا کہ ہم سب احمق، باولے، بے خوف اور دیوانے ہیں۔ لیکن کبھی کسی نے یہ سوچا کہ عوام کے اندر یہ سب صلاحیتیں پیدا کرنے والا کون ہے؟
ہمارے کالم نگار، اینکر پرسنز، موٹیویشنل اسپیکرز ہر وقت میڈیا کے ہر فارم پر بولتے ہیں اور عام عوام بولیں تو انھیں بولیریا کے مرض میں مبتلا قرار دیتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان اپنی زمین گرم ہونے پر زمین سے دو فٹ اوپر اچھلتے ہوئے احتجاج کی کال دیتے ہیں۔ سڑکیں بند کروا کر جلاؤ گھیراؤ کی ترغیب دیتے ہیں اور جب زمین ٹھنڈی ہو تو خراماں خراماں چلتے ہوئے مسکرانے، کھلکھلانے کے ریکارڈ توڑ دیتے ہیں۔ ان کے چہروں کی چمک اور شگفتگی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔
ہمارے اساتذہ تربیت تو دور کی بات کورس ہی پڑھا لیں تو غنیمت ہے۔ مگر شاگردوں سے دیوانگی کی حد تک فرمانبرداری کی توقع رکھتے ہیں اور گھریلو سطح پر جو بچہ زرا سا مختلف طبعیت کا ہو۔ گھر والے اسے پاگل مشہورِ کر دیتے ہیں۔
ہمارے شاعر حضرات ہر وقت محبوب کے عشق، اس کے حسن، اس کی اداؤں پر پاگل ہوئے رہتے ہیں اور مجھ سمیت سب پاگل ان کے دیوان پڑھ کر ڈگری ہی حاصل کر لیتے ہیں۔
شاید یہ بھی پاگل پن اور جنون ہی ہے، جو بیس بائیس سال کا خوبصورت جوان لڑکا، اپنے ملک کی خاطر، اس کے امن کو بحال کرنے کی کوشش میں دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بن کر جان سے جاتا ہے۔
آخر ہم لوگ چاہتے کیا ہیں؟ تمام حکمران اپنے مفادات کے لیے عوام کو استعمال کرتے ہیں۔ پھر مقصد پا لینے کے بعد وہی عوام کو گونگا بہرا اور اندھا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ سب میری آنکھوں سے دیکھیں اور میرے کانوں سے سنتے ہوئے، میرے ذہن سے فیصلہ کریں۔
موٹیویشنل اسپیکرز بول بول کر عوام کی سماعتوں پر ہتھوڑے برساتے ہیں اور جب عوام بولتی ہے تو اسے بولنے والے پاگل قرار دیتے ہیں۔
درخواست ہے کہ صاحب اقتدار اور اشرافیہ سب خاموش ہو جائیں، یقین مانیں عوام بھی خاموش اور پُرسکون ہو جائے گی۔ عوام کو پاگل قرار دینے سے پہلے یہ سب لوگ اپنے پاگل پن کا علاج کروائیں۔
کاش کہ ایک ایسی آئینی ترمیم بھی پاس ہو جائے، جس کے مطابق ہر اعلیٰ عہدے پر فائز شخص اپنی ذہنی صحت کا تحریری سرٹیفکیٹ کسی مستند ادارے سے لے کر اپنے سی وی کے ساتھ منسلک کرے۔ تا کہ پیارے پاکستان میں پاگلوں کی تعداد پر قابو پانے کے بعد ان کا علاج بھی کروایا جا سکے۔