Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Har Sadi, Kitab Se Ishq Ki Sadi

Har Sadi, Kitab Se Ishq Ki Sadi

ہر صدی، کتاب سے عشق کی صدی‎

23 اپریل 1995 کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے عالمی یوم کتاب منانے کا فیصلہ کیا۔ اس دن کا مقصد عوام الناس میں کتب بینی کو فروغ دینا تھا۔ یونیسکو نے تو کچھ عرصہ قبل کتاب کی اہمیت کو محسوس کیا۔ مگر دنیا کے سب سے سچے اور خوبصورت دین اسلام میں صدیوں پہلے ہی کتاب کو اہمیت حاصل رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہر دور میں پیغمبر بھیجے۔ جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ ان میں سے چار پر الہامی کتابیں اتریں۔ حضرت موسؑی جن کا سب سے زیادہ ذکر قرآن کریم میں ہے۔ ان پر توریت اتری۔ حضرت عیسیٰؑ جو دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ حضرت مریمؑ کے بیٹے پر انجیل اتاری گئی۔

حضرت داؤدؑ پر زبور کا نزول ہوا۔ بہت سے پیغمبروں پر آسمانی صحیفے بھی اترے اور جب اللہ تعالٰی نے اپنے دین کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ تو آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر اپنی وہ آخری کتاب اتاری، جس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا۔

یعنی آخری نبی ﷺ، آخری کتاب قرآن کریم، اور اس کے بعد سب کچھ لاک۔ اب نا کوئی تبدیلی آئے گی اور ناہی کچھ نیا نازل ہوگا۔

قرآن کریم کا نزول بتاتا ہے کہ کائنات کے خالق ومالک نے بھی کتاب کو مقدم جانا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمیں اغیار کتاب کی اہمیت بتا رہے ہیں۔

حالیہ دور کا جائزہ لیں تو صاحب اقتدار نے عوام الناس کی سوچ کو محدود کرنے، غلامانہ ذہنیت کو پروان چڑھانے کے لیے کتاب کو شجر ممنوعہ بنا دیا۔ آج دیکھ لیں، کتابیں امراء کے ڈرائنگ رومز کی زینت ہیں۔ عام عوام جنہیں کھانے کے لالے پڑے ہیں۔ وہ اپنے راشن کا بندوست کریں یا کتابیں خریدیں۔

جس حکومت پنجاب میں بچوں کے کورس کی کتابیں خریدنے کی سکت نا ہو۔ اس حکومت نے کتاب کا دن کیا منانا؟

ویسے بھی اس ہمسائے کی آمد اہم تھی، جو رات کی تاریکی میں ہم پر چوروں کی طرح حملہ کرتا ہے۔

کیا تھا، جو حکومت وقت اس دن کو ملکی سطح پر مناتے ہوئے، بچوں کے کورس کی مفت کتابوں کا ہی اعلان کر دیتی۔ مجھے یقین ہے، وزیراعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ تک شاید کسی کو یہ دن یاد ہی نا ہا گا۔

ہماری ترجیحات بدل چکی ہیں۔ بشری بیگم جیسی سابقہ خاتون اول، جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ اس کے بازو کی درد، اس کے کمرے کی خوشبو، ہمارے موضوع ہیں۔

عمران خان جیسا ذہنی مریض جو ملک کو نقصان پہنچا کے دیسی مرغے اور بکرے اڑا رہا ہے۔ اس کی رہائی اہم ہے۔

ووٹ بنک تگڑا کرنے کے لئے سکھ حضرات کے ساتھ بیٹھ کر اور کڑہی مانگ کر کھانا اہم ہے۔

ججز کے فیصلوں پر لاحاصل بحث کرکے ایک گھنٹے کا پروگرام کرنا اہم ہے۔

اندازہ کریں عوام الناس کا ذہنی معیار کیا ہے کہ ایک کتاب کے تجزیے کی ویڈیو پر چالیس سے پچاس ویوز آتے ہیں۔ اور کھانے کی ویڈیو پر تعداد سینکڑوں میں پہنچ جاتی ہے۔

ظاہر ہے جس عوام کو مہنگائی نے بھوکا مارا ہوا ہے۔ انھیں چودہویں کا چاند بھی گول روٹی دکھائی دے گا۔

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ ہمارے ہر تفریحی مقام پر کھانے کے اسٹالز کا رش ہوتا ہے۔ مگر کہیں بھی مفت کتابیں پڑھنے کے لئے کوئی انتظام نہیں ہوتا۔

ہماری لائبریریاں رہائش سے دور ہوتی ہیں تا کہ کتابوں کا حصول عوام کے لیے آسان نا ہو جائے۔ اور ان کے اندر شعور بیدار نا ہو جائے۔ کیوں کہ عوام کا درست شعور صاحب اقتدار اور اشرافیہ کو سوٹ نہیں کرتا۔

عوام سے درخواست ہے کہ خود بھی کتابیں پڑھیں اور اپنے بچوں میں بھی شوق پیدا کریں۔ تا کہ ہم ہجوم نہیں ایک قوم بن سکیں۔

Check Also

Nasaloo, Aik Riwayat Ak Yaad

By Amirjan Haqqani